بنگلہ دیش میں سیلابوں سے 25 افراد ہلاک، چالیس لاکھ متاثر
ڈھاکا،جون۔بنگلہ دیش میں مون سون بارشوں اور طوفانوں کی وجہ سے کم از کم 25 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ سیلابوں نے تباہی مچا دی ہے۔ تقریبا چالیس لاکھ افراد سیلاب زدہ علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔بنگلہ دیش کے نشیبی علاقوں میں لاکھوں لوگوں کے لیے سیلاب ایک باقاعدہ خطرہ ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسے سیلابوں کی تعداد اور تباہی مچانے کی طاقت غیر متوقع طور پر بڑھ گئی ہے۔گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والی مسلسل بارشوں کی وجہ سے ملک کے شمال مشرق کے وسیع علاقے زیر آب آ چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے وہاں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کرنے کے لیے فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ پانی کے زیادہ بہاؤ کی وجہ سے ندیوں کی بندھ ٹوٹ رہے ہیں اور اس طرح اچانک دیہات کے دیہات زیر آب آ رہے ہیں۔ حکومت نے مقامی سکولوں کو ریلیف کیمپوں میں تبدیل کر دیا ہے۔خبروں کے مطابق کمپنی گنج گاؤں نامی ایک گاؤں کے رہائشی لقمان کا کہنا تھا، ”جمعے کی صبح تک پورا گاؤں ہی زیر آب آ چکا تھا اور ہم وہاں پھنسے ہوئے تھے۔‘‘اس 23 سالہ نوجوان نے مزید بتایا، ”اپنے گھر کی چھت پر سارا دن انتظار کرنے کے بعد ایک پڑوسی نے ہمیں اپنی کشتی کے ذریعے بچایا۔ میری والدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔‘‘اسی طرح ریسکیو کی گئی ایک خاتون عاصمہ اختر نے بتایا کہ وہ سب گزشتہ دو روز سے وہاں پھنسے ہوئے تھے اور پانی چڑھتا ہی جا رہا تھا۔ عاصمہ کے مطابق ان کے اہلخانہ دو روز سے بھوکے تھے، ”پانی اتنی تیزی سے بڑھا کہ ہم اپنی کوئی چیز بھی ساتھ نہیں لا سکے۔ جب سب کچھ ہی پانی کے اندر ہو تو آپ کیسے کچھ پکا سکتے ہیں؟خبروں کے مطابق پولیس حکام نے بتایا کہ طوفانوں کے باعث آسمانی بجلی گرنے سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں جمعے کی دوپہر تک کم از کم 21 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔حکام نے آئندہ چند روز میں ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ مقامی پولیس افسر منظور رحمان نے بتایا ہے کہ بجلی گرنے سے ہلاک ہونے والوں میں تین بچے بھی شامل ہیں، جن کی عمریں 12 سے 14 برس کے درمیان تھیں۔پولیس انسپکٹر نورالاسلام نے بتایا ہے کہ بندرگاہی شہر چٹاگانگ میں پہاڑی پر واقع مکانات پر مٹی کے تودے گرنے سے مزید چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔سلہٹ ریجن کے چیف گورنمنٹ ایڈمنسٹریٹر مشرف حسین کے مطابق گزشتہ دوپہر کو بارشوں میں عارضی طور پر تعطل پیدا ہوا تھا لیکن ہفتے کی صبح سے سیلابی صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ مشرف حسین کے مطابق اس پورے علاقے میں بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے، ”حالات بہت خراب ہیں۔ چالیس لاکھ سے زائد افراد سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘سیلاب کے باعث سلہٹ میں ملک کے تیسرے سب سے بڑے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔موسمیاتی ماہرین کے مطابق آئندہ دو روز کے دوران بنگلہ دیش اور بھارت کے شمال مشرقی بالائی علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔اس ہفتے کی بارشوں سے پہلے سلہٹ کا خطہ گزشتہ ماہ کے آخر میں تقریباً دو دہائیوں میں آنے والے بدترین سیلاب سے ابھی نمٹ ہی رہا تھا۔ تب بھی اس علاقے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 40 لاکھ دیگر متاثر ہوئے تھے۔