یمن حوثی باغیوں کی طرف سے بچہ فوجی بھرتی جاری
صنعا،جون۔یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بچوں کو باغیانہ جنگ میں جھوکنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں سکولوں کے کلاس رومز اور مساجد میں بھی بچوں کو فوجی تربیت دی جارہی ہے۔نو عمر بچوں کو اس کے باوجود حوثی فوج میں بھرتی کیا جارہے کہ ماہ اپریل میں اقوام متحدہ کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں اس عمل کو روک دیا گیا تھا۔ والدین کو دباو میں لا کر اپنے بچوں کو حوثی فوج کا حصہ بنانے کے لیے کہا جاتا ہے۔بچوں کو فوجی بنانے کا انکشاف ایک ویڈیو سے سامنے آیا جس میں ایک سکول کی کلاس کے دوران ایک انسٹرکٹر بچوں کو اے کے 47 کلاشنکوف کے بارے میں لیکچر دیتے ہوئے اس کے مختلف پرزوں کے بارے میں سکھا رہا ہے۔ نیز یہ سکھا رہا کہ اسے لوڈ کیسے کرنا ہے اور گولی کیسے چلانی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بچے کو انسٹرکٹر اے کے 47 چلانا سکھا رہا ہے اور بقیہ کلاس کے بچے ارد گرد کھڑے ہیں۔ ان بچوں کی عمر دس سال سے زیادہ نہیں ہے۔بتایا گیا ہے کہ ویڈیو دارالحکومت صنعا کے شمال مغرب میں حوثی باغیوں کے زیر قبضہ صوبے کے ایک سکول کی ہے اور محض چند ہفتے پہلے بنائی گئی یہ ویڈیو اسی مہینے سامنے آئی ہے۔ حالانکہ ماہ اپریل کے دوران اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدے میں طے پایا تھا کہ بچوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن انہیں فوجی رینکس میں بھرتی کر کے جاری خانہ جنگی میں بروئے کار لایا جا رہا ہے۔یہ بات حوثی حکام ، امدادی کارکنوں اور مقامی رہائشیوں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنی کی شرط پر بتائی ہے۔ دو حوثی اہلکاروں نے تو یہاں تک کہا ” حالیہ دو مہینوں میں حوثی باغیوں نے سینکڑوں دس سال یا اس کے لگ بھگ عمر کے بچوں کو بھرتی کیا ہے۔ ان بچوں کو بھرتی کرنے کے بعد اگلے محاذ پر تعینات کیا گیا ہے۔تاہم حوثی باغیوں میں موجود شدت پسند سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ دس بارہ سال کی عمر میں بچے مردوں میں ہی شمار ہوتے ہیں” اس عمر کے لوگ بچوں میں شامل نہیں ہوتے بلکہ مرد ہوتے ہیں۔” اس لیے ضروری ہے کہ اپنی قوم کے دفاع کے لیے سعودی اور امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے سامنے آئیں۔معلوم ہوا ہے کہ باغی حوثی بچوں کو فوج میں برتھی کرنے کے لیے سمرکیمپوں کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سمر کیمپ حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں کے سکولوں اور مسجدوں میں لگائے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر تعداد ملک کے شمالی وسطی اور صنعا میں لگائے جارہے ہیں۔واضح رہے یمن میں حوثی بغاوت 2014 میں شروع ہوئی تھی۔ جب حوثیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم اگلے سال کے آغاز میں ہی سعودی عرب اس جنگ میں داخل ہو گیا تاکہ حکومت کو بحال کرا سکے۔ اب تک یمن کی اس جنگ میں 150000افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان ہلاک شدگان میں 14500 شہری بھی شامل ہیں۔اس صورت حال میں بچہ فوجیوں کو کئی سال پہلے جنگ میں شامل کر لیا گیا تھا۔ صرف 2020 اور 2021 کے دوران 2000 حوثی بچہ فوجی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یمنی حکومت کی فورسز بھی بچوں کو فوج میں بھرتی کرتی ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کی اس جنگ میں 10200 بچے مارے جا چکے ہیں۔ مگر یہ واضح نہیں ہے کہ لڑتے ہوئے کتنے بچے مارے گئے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حوثی باغی والدین کو دھمکا کر اور دباو میں لا کر بچوں کو فوجی بنانے کے لیے کہتے ہیں۔ یہاں تک دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر بچے قوم کے دفاع کے لیے بھرتی نہ کرائے تو راشن نہیں دیا جائے گا۔ ان بچوں کی فوجی تربیت کے دوران انہیں نعرے سکھاتے ہوئے کمانڈر کہتا ہے ”خدا کے سپاہی ” جوابا فوجی بچے کہتے ہیں ” ہم آرہے ہیں۔