وڑن 2030: عالمی سطح پر سعودی عرب کی پہچان تبدیلی کے راستے پر
ریاض،جون۔سعودی عرب کو تیزی سے تبدیلی کے راستے پر ڈال دینے والے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وڑن 2030 دنیا میں سعودی شناخت کی تبدیلی کا زینہ بن گیا۔ سعودی وڑن 2030 کو عالمی ذرائع ابلاغ اور کاروباری حلقوں میں جس طرح توجہ اور پذیرائی ملنے لگی ہے۔ مستقبل قریب میں یہ وڑن ہی نئی سعودی برینڈنگ کا موجب ہوگا۔سعودی عرب گلوبل میڈیا کوریج کی ایک تازہ رپورٹ میں اس بارے میں دلچسپ اور متاثر کن حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کو مملکت سعودیہ کی شناخت کا نام دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وڑن 2030 کس طرح مملکت کو نئی پہچان دینے کا باعث بن رہا ہے۔رپورٹ جسے چند دن پہلے ہی کارما نامی ادارے نے جاری کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کی تیزی سے تبدیل ہوتی شناخت کی مظہر ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ پندرہ ماہ پہلے اور آج کے سعودی عرب کی شہرت وشناخت میں غیر معمولی فرق آ چکا ہے۔ بنیادی طور پر انتہائی سرعت سے آنے والا یہ فرق ہی اس رپورٹ میں زیر بحث ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کا دائرہ تیس مارکیٹوں اور بین الاقوامی سطح پر ڈیجیٹل میڈیا میں سعودیہ کا نمایاں حوالہ ہی موضوع رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 کی پہلی سہ ماہی میں تیس فیصد مضامین وڑن 2030 کے بارے میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملے۔ جبکہ دو سال قبل 2020 میں ان مضامین کا تناسب 19 فیصد تھا۔یوں 2020 اور 2021 کے مقابلے میں ایک واضح تبدیلی اور پیش رفت ہے۔ ہر آنے والے سال میں پچھلے سال کے مقابلے میں وڑن 2030 کی وجہ سے مثبت ریسپانس اور احساسات نو فیصد کی شرح سے بڑھے ہیں۔ جبکہ سعودی عرب کے بارے میں منفی کوریج میں اٹھارہ فیصد کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ البتہ جیو پولیٹکل سطح پر پیش آنے والے بعض واقعات خصوصا یوکرین جنگ نے اس خبروں کے مثبت اور اچھے رجحان کو متاثر کیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشی امور پر دو ہزار اکیس کے دوران مین سٹریم میڈیا دوسرا بڑا موضوع یا حوالہ تھے۔ یہ مجموعی مضامین کا بیس فیصد تھے۔ جبکہ تیل، گیس و دیگر موضوعات تیسرا اہم موضوع تھے، اس سلسلے میں کوریج 14 فیصد رہی۔ اسی طرح سیاحت وثقافت کے حوالے سے نو فیصد کوریج رہی۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اب سعودی عرب کو صرف تیل کی دولت کے حوالے سے نہیں جانا جاتا، بلکہ سعودی برینڈنگ کے اجزائے ترکیبی میں وسعت آ رہی ہے۔ اس میں ویڑن 2030 کا کردار بنیادی ہے۔ وڑن 2030 واضح طور پر سعودی عرب میں سماجی اور معاشی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔اسی کی بدولت سعودی عرب تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور سعودی عرب کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے تصورات بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس کا اعتراف کارما کے ڈائریکٹر راوان ہاشم نے العربیہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمارا اس رپورٹ کو مرتب کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم تبدیل ہوتے تصورات کا احاطہ کریں تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ سعودی پہچان میں کس طرح اور کن عنوانات سے تبدیلی کا سفر جاری ہے۔ اس رپورٹ میں 2021 کے بدلتے ہوئے سعودی عرب میں سعودی خواتین کی نئی کامیابیوں، رجحانات کی نئی جہتوں اور بااختیاری کے ماحول میں سعودی زندگی میں عملی شمولیت کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔راغدہ درغام بیروت انسٹی ٹیوٹ کی بانی ایگزیکٹیو بھی ہیں اور ایک کالم نگار بھی ان کا اس بارے میں کہنا ہے واقعہ یہ ہے کہ تبدیلی کبھی آنکھوں سے اوجھل رہ سکتی ہے نہ اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب میں وڑن 2030 کے ذریعے ایک انقلاب کا ارتقا ہو رہا ہے۔ یہ انقلاب سعودی معاشرے اور تمدن کو متاثر کر رہا ہے۔درغام کا اس امر سے بھی اتفاق ہے کہ سیاسی معاملات اب میڈیا کی دلچسپی کا اکلوتا موضوع نہیں رہیں گے۔ تاہم سیاست کا موضوع گفتگووں سے غائب بھی نہیں ہو جائے گا۔ البتہ ہمہ جہت موضوعات سامنے ہوا کریں گے۔ تیل سے متعلق امور، سعودی عرب اور مشرق وسطی کے تذویراتی نوعیت کے معاملات کے ساتھ ساتھ سعودی تعلقات و معاہدات کی بھی میڈیا میں اہمیت رہے گی۔کرونا کے بعد کے دنوں میں سعودیہ کے لیے مواقع ہوں گے کہ وہ اپنے ہاں سیاحت کے امکانات اور معاشی دلچسپیوں کو نمایاں انداز میں سامنے لائے۔ جیسا کہ اس رپورٹ سے معلوم ہو رہا ہے کہ سعودی عرب ٹیکنالوجی، ماحولیات، تفریحات، کھیلوں کے علاوہ سائنس کے حوالے سے کیا کیا پیش قدمی کر رہا ہے۔ یہ سب موضوعات میڈیا کی توجہ پا چکے ہیں۔ میڈیا میں اب تک ان موضوعات کو چالیس فیصد کوریج ملنا شروع ہو گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں اضافہ ہو گا۔ہاشم کہتے یں یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ ایک نیا سعودی عرب جنم لے رہا ہے۔ درغام سعودی عرب کے اس سفر کو درست سمت میں قرار دیتی ہیں۔ تاہم یہ بھی کہتی ہیں کہ وڑن 2030 کا سفر ایک لمبا سفر ہے۔ اسی طرز پر اصلاحات اور تبدیلیاں مشرق وسطی کے بہت سارے ممالک میں ضروری ہیں۔ تاکہ پورے خطے میں استحکام وترقی جڑ پکڑ سکے۔