مایوسی کو کیسے شکست دیں؟
مایوسی ذہنی یا نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جس کے تحت ایک انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ جس تکلیف،مشکل یا پریشان کن مسائل سے دو چار ہے اس سے نکلنے کا نہ کوئی راستہ ہینہ کوئی امکان ، نہ اس کے حل ہونے کی کوئی امید۔۔۔۔اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔
مایوسی گناہ ہے۔۔۔۔۔مایوسی عذاب ہے۔۔۔۔۔ مایوسی بیماری ہے.۔۔۔۔مایوسی کفر ہے۔اور آج ہر کوئی اسی مایوسی کا شکار ہے اور اس مایوسی کے دلدل میں دھنستا ہی جارہا ہے۔ہر جگہ بس مایوسی کا راج ہے۔ اور آج اس مایوسی ڈیپریشن کی وجہ سے ہم سوشل میڈیا اور اخبارات میں دیکھتے ہیں کہ لوگ خودکشی جیسی حرام موت کو بھی گلے لگا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مایوس صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ورنہ مومن بندے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے جب چاہے بخش دیاور جیسے چاہے بے حساب دیتا ہے۔ اسے کوئی روکنے والانہیں۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ویسے بھی اگر ہم اس کی رحمتوں، نعمتوں سے نا امید ہوجائیں گے تو پھر کون ہے جو ہمیں کچھ دے سکے گا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مایوسی سے بہت نفرت فرمائی ہے اور یہ نصیحت فرمائی ہے کہ خدا ئے تعالیٰ سے رحم کی ہمیشہ امید رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس پر ظاہر ہوتا ہے۔ پس جیسا وہ اللہ پر گمان کرے گا ویسا ہی اللہ اس سے سلوک کریگا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنی رحمتوں کا بار بار تذکرہ فرماتا ہے۔’’ اے نبی فرما دیجئے اے میرے بندوں! جنہوں نے اپنی جانوں پہ زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جائو، بالیقین اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔” (سورۃ الزمر۔آیت53)
اور ایک جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے،’’اپنے رب کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئیہی لوگ ہوتے ہیں۔‘‘( سورۃ الحجر۔آیت نمبر 56)
مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ مصیبتوں ، پریشانیوں اور تنگدستی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو گناہگار آدمی اللہ تعالی کی رحمت کی امید رکھتا ہے وہ اس بندے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہوتا ہے جو بڑا عبادت گزار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے اور اللہ تعالی کا اطاعت گزار ہونے کے باوجود یہ امید نہیں رکھتا کہ اسے اللہ تعالی کی رحمت ملے گی۔( مسند الفردوس، باب العین، فصل من ذوات الالف واللام)
مایوس ہونا کفر کے برابر ہے کیونکہ مایوس ہونے کا مطلب ہے کہ انسان نے اللہ کے ہونے کا انکار کیا۔ اگر اللہ ہے تو پھر مایوسی کس بات کی؟ وہی سنبھال لے گا جو بھی مشکل، پریشانی ہوگی۔ مگر جو لوگ مایوس ہوجاتے ہیں وہ اندر ہی اندر دل ہی دل میں یہ سوچتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں مشکل میں پریشانی میں ڈالا اور سوچنے لگتے ہیں کہ اللہ کا وجود ہے بھی یا نہیں ہے۔ وہ دہریے ہوجاتے ہیں۔کسی بھی انسان کا ناامید اور مایوس ہوجانا۔۔۔ اللہ کو کوسنا ، تقدیر سے شکوہ گلہ کرنا۔۔۔۔یونہی ہر وقت بے وجہ فریاد کرنا۔۔۔ان ساری باتوں سے نا امید ہونا ہی کفر کہلاتا ہے۔
زندگی میں کئی لمحات ایسے آتے ہیں جب امید کا بندھن ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے، آپ محنت کرتے ہیں لیکن صبر واستقامت کے باوجود زندگی جیسے چاہے نتائج نہیں ملتے اور ہم مایوسی کا شکار ہوتے اور سوچ لیتے ہیں کہ اب زندگی سے کوئی اچھی امید رکھنا بیکار ہے ، یہاں تک کہ دماغی اور جسمانی طور پر کمزورانسان آزمائش کے موقع پر اپنی اِس مایوسی اور محرومیوں سے بھری زندگی سے جان چھڑانے تک کا عزم کر لیتاہے۔ زندگی میں ایسا وقت کبھی بھی کسی پر بھی آسکتا ہے کیونکہ مشکل وقت سے گزر کے اللہ نہ صرف اپنے بندوں کی آزمائش لیتا بلکہ ہر لمحے کے ساتھ گزرتی اس زندگی میں آگے آنے والے مزید مشکل وقتوں کے لئے مضبوط بنا دیتا ہے۔ زندگی اچھے برے لمحات کے نشیب و فراز کا نام ہے۔ یہ ایک امتحان ہے جس میں حصہ لینے والا ہر انسان مختلف آزمائشوں سے گزر کر کامیاب یا ناکام ہوتا ہے۔ جیسے دوڑ لگانے کی شرط لگتی ہے اور دوڑ میں بھی جیت اور ہار کا فیصلہ صرف پھرتی اور چالاکی سے نہیں بلکہ ہمت اور مضبوطی سے کیا جاتا ہے۔
جب کبھی زندگی آپ کو کسی ایسے موڑ پر لاکھڑا کرے جہاں قدم لڑکھڑانے لگیں تو گھبرانے اور زندگی سے مایوس ہوجانے کے بجائے صبر، استقامت ، ہمت اور بلند حوصلے سے زندگی کی اس دوڑ میں خود کو ایک عقلمند کھلاڑی ثابت کرنا چاہئے اور خود کو کامیابی حاصل کرنے والوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہئے۔ انسان کو کبھی اپنی زندگی سے ہار نہیں ماننی چاہیے بلکہ ایک چیلنج سمجھ کر جینا چاہیے کیونکہ زندگی ایک آزمائش ہے جو اس میں کھڑا اترا وہ پار ہوگیا۔ زندگی مایوسی کا نہیں بلکہ زندہ دلی کا نام ہے۔ زندگی اللہ رب العزت کی دی ہوئی ہمارے پاس امانت ہے اْس پر اللہ ہی کو حق ہے کہ جب چاہیے واپس لے۔ اپنی زندگی سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔اور خود کشی جیسی حرام موت کو اپنا کر آخرت بھی خراب نا کریں۔ دنیا کی تکلیف سے بچنے کے لئے خود کشی کر لی پھر آخرت کے اللہ کے عذاب سے بچ کر کہاں جاؤگے؟۔