تیونس کے صدر نے بالآخر پارلیمان تحلیل کر دی
تیونس،مارچ۔تیونس کے قانون سازوں نے پارلیمان کے آن لائن اجلاس میں صدارتی فرمان کو منسوخ کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم صدر قیس سعید نے اسے بغاوت کی ایک ناکام کوشش قرار دیا اور پارلیمان کو ہی تحلیل کر دیا۔تیونس کے صدر قیس سعید نے 30 مارچ بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ معطل شدہ پارلیمنٹ کو اب تحلیل کر رہے ہیں۔ 217 رکنی پارلیمان کو صدر نے کافی عرصے سے معطل کر رکھا تھا تاہم اس کے باوجود پارلیمنٹ کے 124 ارکان نے ایک آن لائن اجلاس کیا اور اسی کے رد عمل میں صدر نے ایوان کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ایوان کے نائب اسپیکر طارق فتیتی نے کہا کہ آن لائن اجلاس میں تقریباً 116 قانون سازوں نے صدر کے ان غیر معمولی اقدامات کے خلاف ووٹ کیا، جو سعید قیس جولائی سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً استعمال کرتے رہے ہیں۔
تیونس کے حکام کا کیا کہنا ہے؟قومی سلامتی کے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کے بعد صدر قیس سعید نے کہا کہ بغاوت کی بے مثال ناکام کوشش سے تیونس کی ریاست اور عوام کو محفوظ بنانے کے لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ادھر تیونس کے وزیر انصاف نے ملک کے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ وہ ریاست کی سلامتی کے خلاف سازش کرنے پر اب تحلیل شدہ پارلیمنٹ کے ارکان کے خلاف عدالتی تحقیقات کا آغاز کریں۔تیونس کے صدر کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنے کے بعد ایوان، اپنی قانونی حیثیت کھو چکا ہے۔ انہوں نے ارکان پارلیمان پر تیونس کے اداروں کے خلاف سازش کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔صدر قیس سعید نے کہا، ہمیں ریاست کو تقسیم ہونے سے بچانا چاہیے… ہم زیادتی کرنے والوں کو ریاست کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ قانون کے سابق پروفیسر سعید نے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے تیونس کے آئین کی دفعہ 72 کا حوالہ بھی دیا۔
سیاسی بحران کیسے شروع ہوا؟سن 2011 میں طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے زین العابدین بن علی کی معزولی کے بعد تیونس ایک جمہوری ملک بن کر ابھرا۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں اسلام پسند النہضہ پارٹی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ تاہم حالیہ برسوں میں اس کی حمایت میں کچھ کمی بھی آئی ہے۔سن 2019 کے صدارتی انتخابات میں قیس سعید ایک آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور النہضہ سمیت کئی جماعتوں نے ان کی حمایت کی تھی۔ سعید نے اپنی مہم کے دوران بدعنوانی سے نمٹنے اور تیونس کی سیاست کو صاف کرنے کا وعدہ کیا تھا۔لیکن گزشتہ برس انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم ہشیم مشیشی کو اچانک برطرف کر دیا اور مقننہ کو بھی معطل کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ صدارتی فرمان کے ذریعے اپنے اختیارات میں اضافہ کرتے گئے اور یہاں تک کہ انہوں نے عدالت سے متعلق بعض نئے اختیارات بھی خود حاصل کر لیے۔ایک برس کے دوران تیونس میں تین بار حکومتیں تبدیل ہوئیں اور ہشیم مشیشی کو جب برطرف کیا گیا تو وہ تیسری کابینہ تھی۔ پارلیمان بھی منقسم تھی اس لیے نئی حکومت کا قیام بھی مشکل تھا۔کورونا وائرس کی وبا اور معاشی بدحالی کے سبب سن 1956 کے بعد پہلی بار تیونس کو بدترین قسم کی کساد بازاری کا سامنا ہے۔ اس وقت ملک بے روز گاری کی بلند ترین شرح کی مار جھیلنے کے ساتھ ہی قرض میں بری طرح سے ڈوبا ہوا ہے۔ نومبر 2021 میں ہی تیونس نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے باضابطہ طور پر قرض کی درخواست کی تجدید کی تھی۔ گندم برآمد کرنے والے ملک یوکرین میں جنگ کی وجہ سے تیونس کی معاشی پریشانیوں میں مزید شدت آئی ہے اور اس کی وجہ سے خوراک کی قیمتیں اور بڑھ گئی ہیں۔