بی جے پی راج میں بیچاری پولس بن چکی ہے واچ ڈاگ
احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
پولس والے بگڑ گئے ہیں ، کتے کی طرح سڑک پر پڑے جھوٹا چاٹیں۔ یہ الفاظ کہنے والا کوئی ایرہ غیرہ غنڈہ، بدمعاش نہیں ہے بلکہ یہ کرناٹک کے وزیرداخلہ ارگاجنیندرا کی زبان ہے جو پولس اہلکاروں پہ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولس کو "جھوٹا چاٹو ” کہہ رہے ہیں۔کرناٹک کے چکمنگلور مین جناب ہوم منسٹر نے گاؤکشی کے معاملے پر پولس اہلکار سے فون پر بات کرتے ہوئے یہ سب کہا ہے کہ پولس جھوٹا کھارہی ہے۔وہ نوکری چھوڑ کر گھر چلے جائیں ، حیثیت نہیں تو یونیفارم نکال کر پھینک دیں اور کہیں جاکر مرجائیں۔دراصل یہ سارا معاملہ گاؤکشی سے جْڑا ہے گذشتہ دنوں تیرتھہلی میں بجرنگ دل کے اْن دو کارکنان پہ حملہ ہوا ، جنہونے گاؤ رکشا کا ٹھیکا لے رکھا تھا۔ تیرتھ ہلی سے گووا ایکسپورٹ گاڑی کو بجرنگ دل کے دہشتگردوں نے جب روکنے کی کوشش کی تو اْن کے اوپر گاڑی چلانے کی کوشش کی گئی جس میں جانور یعنی بھینسیں سوار تھیں۔ویسے موقعہ پر جو کچھ بھی ہوا ہے یہ حملہ تھا، سیلف ڈیفنس تھا یا کوئی ایکسڈینٹ یہ الگ موضوع ہے ….لیکن یہاں بجرنگ دل والوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ راہ گیروں کو روک کر قانون ہاتھ میں لیں ، آخر پولس کس لئے ہے ؟اگر کوئی مشکوک بھی ہے یا کچھ غلط ہورہا ہے تو پولس کو انفارم کرنا چاہئے لیکن یہاں تو پولس کو نالائق ، کام چور، غیرذمہ دار، نکمے بتاکر مورل پولسنگ کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔اور اس پورے واقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضلع بھر میں مسلم مخالف سنگھی سیاست شروع ہوچکی ہے۔ جس کے چلتے سنگھی نیتاؤن سے لے کر کارکنان تک پولس کی عزت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لئے پولس کو اکسایا دھمکایا جارہا ہے ، اور اسی کے پس منظر میں کئی دنوں سے شہر شیموگہ کے تمام قصائی خانے بند ہیں ، پولس کی جانب سے 4 قصائی خانوں پر چھاپے ماری کی گئی ہے اس دوران 6 لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے، باوجود اہلیان شہر پہ سکتہ غنودگی طاری ہے۔ایسے میں اگر گائے کو بہانہ بناکر کبھی کسی کا قتل کردیا گیا تو اْس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ویسے بھی 2014 سے ملک بھر میں گائے کے نام پر مسلم نوجوانوں ، بزرگوں کے خون کی ندیاں بہائی جاچکی ہیں اور ان تمام واقعات میں شاید ہی کوء ایسا کیس ہو جس میں قاتلوں کو سزا دی گئی ہو۔ٹرین میں سفر کررہے جنید کو مار دیا گیا اس کے علاوہ سینکڑوں نوجوانوں کو شہید کردیا گیا اور اْن سب میں ہم اخلاق کو کیسے بھول سکتے ہیں ؟جس کے گھر ایک خونی بھیڑ پہنچ جاتی ہے اور گھر میں گائے کا گوشت ہونے کے شک پہ بیرحمی سے پیٹ پیٹ کر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ جس کے بعد قصورواروں کو سزا دینے کے بجائے فریج میں موجود گوشت گائے کا ہے یا بکرے کا اس پر بحث چھیڑدی جاتی ہے اور قاتلوں کو کلین چٹ دیتے ہوئے مقتول اخلاق اور اْس کے اہل خانہ کو ہی مجرم بناکر پیش کیا جاتا ہے۔آج کسی سے ذاتی رنجش نبھانی ہے یا کسی کو جانی ومالی نقصان ہہنچانا ہے تو یہاں بم ، تلوار یا کسی اور ہتھیار کی ضرورت نہیں پڑے گی، بس دو تکڑے گوشت اْس کے گھر اْس کی گاڑی میں رکھ دیں اور ایک سنگھی خونی بھیڑ کو اکٹھا کردیں پھر کیا ہے نہ پولس نہ عدالت سزائے موت آن دااسپاٹ۔اور بھارت جیسے ملک میں اس طرح کی ماب لنچنگ کرنے والوں کو کسی قسم کی سزا بھی نہیں دی جاتی بلکہ ریاست کرناٹک کے وزیر اعلی مسٹر بومئی کے مطابق یہ قتل و غارت گیری ایکشن کا ریکشن اور عقیدے سے جْڑا ہے۔بہرحال آج گوشت کا محض ایک تکڑا ایٹم بام نئیوکلیر بام ، اور کورونا وائرس سے بھی کئی گنا زیادہ خطرناک بن چکا ہے۔ایسے میں ہائی کورٹ کی جانب سے گاؤکشی پہ آئے فیصلے کے بعد سنگھیوں کے حوصلے مزید بڑھ چکے ہیں اور ایک طرح سے انہیں مسلمانوں کو قتل کرنے کا کھْلا فرمان لائسینس مل چکا ہے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں بالخصوص قصائی خانوں کے مالکان کو چاہئیے کہ وہ اس جانب توجہ فرمائیں۔ویسے بھی شہر میں تقریبا 70 قصائی خانے موجود ہیں جو فی الحال بند کروادئے گئے ہیں لیکن افسوس اس کے خلاف ابھی تک کوئی آواز نہیں، جبکہ ہر دن کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی گھر پہ پولس کی جانب سے چھاپے ماری جاری ہے۔یہاں پہ اگر غور کیا جائے تو ایک قصائی خانہ سے کئی روزگار جْڑے ہیں، ذبح کرنے سے کٹنگ، کلیننگ، اور جانوروں کے چمڑے اتارنے کا کاروبار جو زیادہ تر دلت کرتے ہیں اور گوشت سے جْڑے کئی ہوٹلس ہیں اور ان سے جْڑے کئی خاندان ہین۔۔ان کے علاوہ اگر سب سے زیادہ کسی کا نقصان ہورہا ہے تو وہ غریب ہندو کسانوں اور مزدوروں کا ہے ، مویشیوں کی قیمتیں گھٹ چکی ہیں ، خرید وفروخت رْک چکا ہے، اوپر سے بوڑھی گائے اور بیلوں کا کھانے پانی کا خرچہ الگ سے ، جو کسانوں کی کمر توڑ رہا ہے۔ ایسے میں اچانک قصائی خانے بند کروانے پر یہ لاکھوں کروڑون غریب کہان جائیں گے ؟؟؟آج بی جے پی لیڈر ایشورپہ کو اْن دکانداروں کی فکر ہے اْن سے ہمدردی ہے جو نشہ کا کاروبار کرتے ہیں یعنی سگریٹ وغیرہ بیچتے ہیں جبکہ سگریٹ پہ باقاعدہ لکھا ہوا ہے کہ یہ صحت کے لئے ہانی کارک خطرناک ہے ، لوگوں کو آویر کرنے کے لئے ڈاکٹرس کی جانب سے اس کے خلاف کیمپینس چلائے جاتے ہیں کیونکہ 90 فیصد لیور، ماؤتھ کینسرس سگریٹ ، شراب اور گوٹکے کی وجہ سے ہوتے ہیں ، آج اسکول کے چھوٹے بچے بھی سگریٹ نوشی کررہے ہیں ، ڈرگس لے رہے ہیں ، جا بجا چرس ، افیم اور گانجہ خرید و فروخت کیا جارہا ہے، نوجوان بچوں کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں لیکن مجال ہے جو پولس یا انتظامیہ کی جو اس پہ روک لگائے یا سخت کاروائی کرے ؟حال ہی میں غنیمت سے شیموگہ پولس نے غیرقانونی طور پر سگریٹ فروخت کرنے والے چند دکانوں سے سگریٹ ضبط کی۔۔ جس کے بعد وزیر پنچایت راج کے ایس ایشورپہ کو دکانداروں کے درد تکلیف، نفع نقصان کی فکر اس قدر کھانے لگی کہ وہ دکانداروں کے سامنے ہی فون پر پولس سے بات کرتے ہوئے مقامی ایس پی کو ہْچا پاگل جیسے غلط الفاظ استعمال کئے۔یہاں تک کہ پولس پر بھڑکتے ہوئے مجھ سے پنگا نہ لینے کی دھمکی تک دی گئی اور آن کیمرہ دکانداروں کے آگے ایس پی کو پاگل ہچا کہا گیا۔ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہان پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے اْن ریاستوں میں پولس کو ڈرا دھمکا کر اْن پہ دباؤ ڈالتے ہوئے ایک طرح سے اْن سے اْن کی آزادی چھینی جارہی اور عوام کے آگے اْن کی شبیہ داغدار کرکے ملک مین مورل پولسنگ کو فوقیت دی جارہی ہے۔پولس جہاں پبلک سروینٹ ہے وہیں، وہیں وہ عوام کی رکشک محافظ بھی ہے ان کی عزت کرنا ضروری ہے لیکن آج چند انپڑھ گوار نیتا اپنے رسوخ و دبدبہ کے چلتے پولس کے وقار کو پیروں تلے کچل رہے ہیں ، جس سے عوام کے آگے پولس کی شبیہ متاثر ہورہی ہے، پولس پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے اور پولس کی حیثیت ایک واچ ڈاگ بن کے رہ گئی ہے ۔۔افسوس کل تک جسے رکشک ، محافظ کہا جاتا تھا آج اْسے کتا کہا جارہا ہے ایک قابل آئی پی ایس، آئی اے ایس افسر جو اپنی محنت لگن جدوجہد سے اس مقام تک پہنچتا ہے افسوس آج ایک دوکوڑی کا سڑک چھاپ نیتا بھی اْس سے غلامانہ سلوک کرتا ہے۔۔خیر حالات جیسے بھی ہوں آج بھی چند مٹھی بھر ایماندار پولس افسران موجود ہیں اور وہ اپنا کام بخوبی جانتے ہیں، انہیں اپنا کام کرنے دیا جائے ، کوئی ان پڑھ گوار غنڈہ بدمعاش طاقت کے چلتے ان کے سر پر بیٹھ کر راج نہیں کرسکتا اور پولس کو سنگھی پولس بنانے کی کوشش کرنا ملک کے امن و امان کو ختم کرنا ہے۔۔ویسے بھی ان سنگھیوں کو اگر واقعی میں گائے سے عقیدت ہوتی واقعی میں یہ گائے کو ماں مانتے اور ان مین تھوڑا بھی دم ہوتا تو یہ پہلے ملک مین جو بڑے سلاٹر ہاؤزس موجود ہین جہاں روزانہ ہزاروں گائے یعنی ماتائیں کاٹی جاتی ہیں اور ان ماتاؤں کا گوشت بیرونی ممالک کے لئے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے جس سے لاکھوں کروڑوں کا کاروبار کیا جارہا ہے پہلے انہیں بند کرواتے۔چھوٹی دکانوں کو بند کروانے سے گائے ماتا کی رکشا ہرگز نہیں ہوگی پہلے اْن سلاٹر ہاؤزس کو بند کروانا چاہئیے جو کوئی مسلمان نہیں بلکہ بھاجپہ کے قریبی بھاجپہ کی پشت پناہی میں چلارہے ہیں۔۔ صرف یوپی کی بات کی جائے تو یوگی کے راج میں چار سلاٹر ہاوزس موجود ہیں۔اس کے علاوہ اگر گاؤشالا کی بات کی جائے تو آئے دن بھوک پیاس اور صحیح دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں گائے مر جاتی ہیں جنہیں ٹرکوں میں بھر کر لے جایا جاتا ہے اْس وقت ان کی شردھا عقیدت اور گائے کے اندر کی ماتا نظر نہیں آتی۔۔فیس بک یوزر انشول گاؤرو کے مطابق ان گائیوں کو کئی کئی دنوں تک بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے اور جب یہ پیاس سے تڑپنے لگتی ہیں تو انہیں پینے کے لئے جو پانی دیا جاتا ہے اْس پانی مین بڑی ماترا میں چونا ملا دیا جاتا ہے جسے پینے سے گائوں کی آنتین اندر سے پک کر پھٹ جاتی ہیں اور یہ تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتی ہیں جسے بعد میں قصائیوں کے ہاتھوں مری ہوئی کہہ کر بیچ دیا جاتا ہے۔ اس طرح گوشالا کے نام پر کہیں نہ کہیں بہت بڑا اسکیم چل رہا ہے۔بہتر ہے ایسی گاؤشالاؤں کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے انہیں بند کروایا جائے۔ آخر میں ہم ایک بار پھر یہی کہیں گے کہ مسلمانوں کو چاہئیے بالخصوص قصائیوں اور ہوٹل مالکان کو کہ وہ اپنا آئنی حق استعمال کرتے ہوئے اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف احتجاج کریں ، سرکار و انتظامیہ سے سوال پوچھین اور ملک بھر کے بڑے سلاٹر ہاؤزس بند کروانے کا مطالبہ کریں، یا کچھ ماہ کے لئے بڑے جانور کا گوشت کھانا مکمل بند کردینپھر دیکھیں انہیں کی جوتی کیسے انہیں کے سر پڑتی ہے ، اور آ بیل مجھے مار کی کہاوت سچ ہوتی ہے جب یہ آوارہ جانور سڑکوں پہ لوگوں کا جینا مشکل کرتے ہوئے گھروں کے اندر گھسنے لگیں گے اْس وقت انہیں پالنے کھلانے پلانے میں ان سنگھیوں کو نانی یاد آئیں گی۔ویسے بھی گولی اور مرہم اْسی کو کرنا پڑتا ہے جسے زخم ہے اور یہاں پر تو گائے کے نام پر زخم ہمارے ہی جسموں پر لگایے جارہے ہیں ایسے میں اس کا حل بھی ہمیں ہی تلاش کرنا ہوگا۔یا تو ہمت سے آگے آئیں ، اپنے حق و انصاف کے لئے آواز اٹھائیں، قانونی کاروائی کریں یا مکمل چھوڑ کر شیر کھائے گھاس کے مصداق کوئی مچھلی فرائی کریں کوئی انڈے سیل کریں، کوئی دودھ اور ہری سبزی کی گاڑیاں ڈھکیلیں، اور اپنے اپنے گھروں خانخاہوں میں آرام فرمائیں۔