بھوک سے نمٹنے میں ہندوستان پڑوسیوں سے بھی پیچھے
عارف عزیز( بھوپال)
ہمارے ملک کے لئے یہ باعث شرم نہیں تو پھر کیا ہے کہ آزادی کے ۷۵ سال بعد بھی وطن عزیز میں بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دینے کے واقعات ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں بھوکے افراد کی تعداد اب بھی بہت زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی ایف بی آر آئی) کی جانب سے گلوبل ہنگر انڈیکس پر جاری تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے ۱۱۹ ترقی پذیر ملکوں میں بھوک کے معاملے میں ہندوستان ۱۰۰ ویں مقام پر ہے۔ گزشتہ سال ہندوستان ۹۷ویں مقام پر تھا یعنی گزشتہ ایک سال کے دوران حالات میں بہتری آنے کے بجائے بگاڑ آگیا ہے اور ہندوستان کو ’’سنگین زمرہ‘‘ میں رکھا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایشیا میں چین کی برابری کا خواب دیکھنے والے ہندوستان کی حالت پہلے سے ابتر ہے۔ اس فہرست میں وہ صرف افغانستان اور پاکستان سے آگے ہے، یعنی پورے ایشیاء میں ہندوستان کی درجہ بندی سب سے خراب مقام پر ہے۔ بھوک سے نمٹنے کے معاملے میں ہندوستان اپنے پڑوسی ملکوں سے بھی کافی پیچھے رہ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین ۲۹ویں، نیپال ۷۲ویں، میانمار ۷۷ ویں، سری لنکا ۸۴ویں اور بنگلہ دیش ۸۸ویں مقام پر ہے۔ رپورٹ میں بچوں میں تغذیہ کی کمی سے متعلق بھی تشویشناک اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔ پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی کل آبادی کا پانچواں حصہ اپنے قد کے مقابلے بہت کمزور ہے، اس کے ساتھ ہی ایک تہائی سے بھی زیادہ بچوں کا قد متوقع طور پر کوتاہ ہے۔ ہندوستانی خواتین کا حال بھی بہت برا ہے۔ ۵۱ فیصد نوجوان خواتین اینیمیا کی شکار ہیں یعنی ان میں خون کی کمی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ سرکاری اعداد و شمار بھی کچھ اس سے مختلف بات نہیں کرتے۔ اسی سال ماہ اپریل میں مملکتی وزیر صحت پھگن سنگھ کلستے نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ملک میں ۹۳ لاکھ سے زائد بچے شدید طور پر بھکمری کے شکار ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق آج ملک میں ۲۱ فیصد سے زائد بچے کو خراب کھانا مل رہا ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسے محض تین ملک جبوتی، سری لنکا اور جنوبی سوڈان ہیں جہاں ۲۰ فیصد سے زائد بچے خراب کھانے کے شکار ہیں یعنی ہماری حالت ان پسماندہ ملکوں سے بھی گئی گزری ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بیجا نہ ہوگا کہ۱۶ سال قبل ۲۰۰۶ء میں جب پہلی مرتبہ یہ فہرست بنی تھی تب بھی ہمارا مقام ۱۱۹ ملکوں میں ۹۷واں تھا، ظاہر ہے،۱۶ سال بعد بھی ہم جہاں تھے وہیں پر کھڑے ہیں یعنی اس درمیان ہندوستان میں کانگریس کی حکومت رہی ہو یا بی جے پی کی، حقیقت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ غذائی تحفظ حاصل کرنے کے لئے زرعی پیداوار اہم ہے، کیوں کہ تقریباً ۹۹ فیصد غذا کی فراہمی زراعت سے ہوتی ہے۔ مستحکم زراعت اور دیہی ترقی ہمیں غربت، بھوک، عدم مساوات، بے روزگاری جیسے بے شمار مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ جب تک زرعی بحران ختم نہیں ہوتا صحت و غذا کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی ڈھانچے سے متعلق مسائل حل نہیں ہوں گے۔