ملائشیا

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
”ملائشیا“جنوبی ایشیاکاوفاقی آئینی بادشاہی نظام کاحامل مسلمان ملک ہے۔ 329847مربع کلومیٹررقبہ پر محیط اس ملک کو جنوبی بحیرہ چین دو تقریباََبرابر حصوں میں تقسیم کرتاہے۔ ایک حصہ جزیرہ نما مغربی ملائیشیایا”ملایا“بھی کہلاتا ہے، ملائیشیاکادوسراحصہ مشرقی ملائیشیایا”ملائشین برمیو“بھی کہلاتاہے، یہ حصہ نسبتاََ کم آبادی کاحامل ہے اور اسی طرح اپنی ترقیات میں بھی مغربی ملائیشیاسے کم تر ہے۔ ملائشیاکی بری سرحدیں تھائی لینڈ، انڈونیشیااوربرونائی دارالسلام کے ساتھ ملتی ہیں جبکہ بحری سرحدوں میں یہ ملک سنگاپور، ویت نام اور فلپائین کے جوار میں واقع ہے۔ ”کوالالامپور“ملائیشیاکادارالحکومت ہے، ملائیشین زبان یہاں کی سرکاری و قومی زبان ہے جبکہ انگریزی کا چلن بھی موجود ہے۔ مقامی لوگوں میں ملائشین کے علاوہ چینی اور ہندوستانیوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو کئی کئی نسلوں سے وہاں آباد ہیں۔ 2010کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی لگ بھگ تین کروڑ نفوس پرمشتمل تھی۔ ملائشیا اپنی معاشی ترقی کی وجہ سے پورے ایشیامیں ایک نمایاں مقام رکھتاہے اور ماہرین معاشیات اس ملک کو ایشیاکا معاشی شیر بھی کہتے ہیں۔ لفظ ”ملائشیا“دراصل ”تامل“زبان کے لفظ ”ملاؤ“ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب پہاڑوں میں گھراہواشہریارہائشی علاقہ ہے۔ بعد میں یہ لفظ مغربی جزائر”سمارٹا“کے حکمران جو ساتویں سے تیرہویں صدی تک یہاں بادشاہت کرتے رہے، ان کے لیے استعمال ہوتارہا۔ 1826میں فرانسیسی بحری سیاح جب یہاں پہنچے تو انہوں نے لفظ”ملاؤ“کواپنی زبان میں ”ملائشیا“کہ کر پکارنا شروع کیاجواب تک اس خطے کی تاریخی پہچان ہے۔ ”نیگریٹو“نسل کے لوگ جوجنوب مشرقی ایشیاکے اولین باشندے مانے جاتے ہیں اس جغرافیائی خطے میں آج سے چالیس ہزارسال پہلے وارد ہوئے۔ پہلی صدی عیسوی میں یہاں پر چینی اور ہندوستانی تاجروں کی آمدورفت کے سراغ بھی ملتے ہیں۔ دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں ملائیشیاکی سرزمین پر تاجروں کے لیے بندرگاہیں تعمیر کی گئیں، تجارت کے راستے ہی یہاں پر ہندومت، بدھ مت اور سنسکرت کاطرزتحریر بھی چوتھی اور پانچویں صدی میں پہنچاجس کے نتیجے کے طوپر ملائشیاکے باسیوں نے بہت تیزی سے اپنے جوارکے اثرات قبول کرنا شروع کر دیے۔ ”لنگ کاسوکا“خاندان نے تاریخ کے طویل ترین دورانیے یعنی دوسری صدی سے پندرویں صدی عیسوی تک حکومت کی۔ اس دوران ”سری وجایا“خاندان کی بادشاہت بھی ساتویں سے تیرہویں صدی تک قائم رہی۔ ”سری وجایا“بادشاہوں کے زوال کے بعدپندوہویں صدی کے آغازمیں ہی انہی کے ایک شہزادے”پرامسوارا“نے اپنی الگ ایک آزاد ریاست قائم کر لی جو بعد میں ”ملاکاسلطانی“کے نام سے مشہور ہوئی۔ سرزمین ملائشیاپر”ملاکاسلطانی“کی بندگاہ بہت جلد علاقائی تجارت کا بہت بڑامرکزبن گئی اور یہاں مسلمان تجار کی آمدوردفت بھی جاری رہنے لگی۔ ”پرامسوارا“اپنے چین کے دورے کے دوران مسلمان چینی امیرالبحر”زنگ ہی“سے بہت متاثرہوااور اس کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام بھی ہو گیا۔ اس نے اپنا ہندوانہ نام تبدیل کرلیااور تاریخ اسلام اسے ”سلطان سکندرشاہ“کے نام سے جانتی ہے۔ تب سے اب تک ملائشیامیں اس دین حق کوکو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔

1511میں ملاکا کی ریاست پر انسانوں ے شکاری پہنچ گئے اور پرتگالیوں نے اس ریاست کو فتح کرلیا، دولت کی حرص و ہوس میں ولندیزی بھی پیچھے نہ رہے اور1641کوگورے یورپی لٹیروں کایہ گروہ بھی یہاں آن پہنچا۔ 1786میں عالمی استعماری گروہ کی ایسٹ انڈیاکمپنی نے بھی یہاں کی آبادی پر اپنے خونین پنجے گاڑ دیے۔ یہی کمپنی چونکہ ہندوستان پر بھی قابض تھی اس لیے اس کی حکومت کے دوران ہندوستانی کثرت سے یہاں آنے جانے لگے اور کچھ قبائل مستقل طورپر یہیں آباد بھی ہو گئے۔ ”لڑاؤاورحکومت کرو“کے تحت گوراطاغوت ایک عرصے تک یہاں جمہوریت کے نام پر انسانوں کی خریدوفروخت اورقتل و غارت گری کامکروہ کھیل کھیلتارہایہاں تک دو بڑی بڑی جنگوں نے اس بین الاقوامی شیطان کے اعصاب شل کردیے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران تین سالوں تک جاپان نے ملایاکے علاقوں پر اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ 1946میں تاج برطانیہ نے ”ملایایونین“بنانے کا اعلان کیالیکن ملایانے اپنی جداگانہ شناخت برقراررکھی اور ”فیڈریشن آف ملایا“ کے نام سے1948میں اپناوجود منوایا اور پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد 31اگست1957کو تاج برطانیہ کا بدبودارطوق اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ 16ستمبر1963کو ملایا اور سنگاپور نے کچھ اور ریاستوں کو ملا کر ”ریاست ملائشیا“کی بنیاد رکھ دی لیکن دو سال سے بھی کم عرصے میں سنگاپور الگ ہو گیااورباقی ماندہ ریاستیں ایشیا کی بہترین مسلمان معاشی طاقت بن کر سلطنت”ملائیشا“بن کر دنیاکے نقشے پر ابھریں۔ قانون کے مطابق اگرچہ یہاں کا بادشاہ نو ریاستوں کے حکمران خاندانوں میں سے پانچ سالوں کے لیے چناجاتاہے لیکن عملاََباری باری ہر ریاست اپنا بادشاہ پیش کرتی ہے۔ جبکہ باقی چار ریاستیں اس انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیتیں۔ حکومتی نظام پارلیمانی طرزکاہے، بادشاہ ریاست کا سربراہ ہوتاہے اور حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتاہے۔ قانون سازی کے لیے دو ایوان ہیں، ایوان نمائندگان اور ایوان بالا۔ ایوان نمائندگان کاتقررپانچ سالوں کے لیے ہوتاہے جبکہ ایوان بالا کے اراکین جو اپنی اپنی ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہیں تین تین سالوں کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ پارلیمان سے وزراکا انتخاب کیاجاتا ہے جن سے بنائی گئی حکومت کو وزیراعظم چلاتاہے۔ ملائشیااپنے قیام سے تادم تحریرکثیرالجماعتی نظام انتخابات کی ڈگرپررواں دواں ہے۔ مرکزکی طرح ریاستوں میں بھی قانون ساز ادارہ ہے جس کے اراکین عوام کی براہ راست تائید سے منتخب ہوکر اپنے منصب تک پہنچتے ہیں۔ عدلیہ آزاد ہے، اعلی ترین عدلیہ کے تحت دو ہائی کورٹس ہیں ایک مشرقی ملائشیامیں اور دوسری مغربی ملائشیامیں۔ ملکی قانون میں زیادہ تر برطانوی نظائرکو پیش نظر رکھاگیاہے تاہم ملک میں شرعی عدالتیں بھی ایک متوازی نظام کی حیثیت سے کام کررہی ہیں جہاں فقہ شافعی کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے مقدمات انہیں شرعی عدالتوں میں ہی پیش ہوتے ہیں۔ ملائشیاایک کثیرالقومی ملک ہے، مقامی ملایا افراد کی شرح 54%سے زیادہ نہیں ہے، 11%آبادی ملائشیاکے نواحات سے ہے جو خود کو ملائشیاکے ہی باشندے گردانتے ہیں لیکن ان کی اکثریت غیرمسلم ہے۔ تجارت پر زیادہ تر چینی قبائل کا قبضہ ہے جن کی شرح 24%تک ہے اور تامل نسل کے ہندوستانی بھی 7%تک اپنا وجودرکھتے ہیں۔ کل آبادی میں مسلمانوں کی شرح62%تک ہے، 20%بدھ مت کے ماننے والے ہیں، 9%مسیحی برادی کے لوگ ہیں اوربمشکل6%تک ہی ہندویہاں پر بستے ہیں اور ایک بہت قلیل تعداد چینی مذاہب، تاؤازم، کنفیوشش اور اجداد پرستوں کی بھی ہے۔ ہرمذہب کے لوگ اپنے اپنے مذاہب کے مقدس ایام اپنے طورپرمناتے ہیں تاہم قومی آزادی کا دن اور بادشاہ کی سالگرہ سمیت کچھ ایام مجموعی طور بھی منائے جاتے ہیں۔ ملک میں چھ سالہ ابتدائی تعلیم لازمی ہے چنانچہ آبادی کا بہت بڑا حصہ خواندہ ہے۔ عالمی برادری میں ملائشیا کی پہچان اس کی مضبوط معیشیت ہے۔ ملایشیا تجارتی لحاظ سے ایک آزاد ملک ہے اوراسکی معیشیت کا زیادہ تر انحصارکارخانہ داری طرزمعیشیت پر ہے۔ حکومت چھوٹے چھوٹے معاشی منصوبے عوام کو پیش کرتی ہے جس کے باعث 2011میں ملائشیا کا ملک ایشیا کی تیسری بڑی معاشی قوت مانا گیا تھا۔ بین الاقوامی تجارتی راہداری اور ملکی پیداوار یہاں کی معیشیت کے دو بڑے ستون ہیں۔ ملائشیا دنیابھرمیں پام آئل برآمدکرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اس کے علاوہ ٹن اور ربرکے میدان میں بھی ملائشیاکا شمار دنیاکی بڑی مچھلیوں میں ہوتاہے۔ سیاحت کاادارہ ملکی آمدن میں تیسرے بڑے عنصر کی حیثیت رکھتاہے۔ حکومت نے معیشیت کواسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کے لیے مملکت میں ایک اسلامی بنک کی داغ بیل بھی رکھی ہے۔ ملک میں سات بین الاقوامی بندرگاہیں ہیں، دو سو انڈسٹریل پارکس ہیں، 95%آبادی کو صاف اور تازہ پانی بسہولت میسر ہے، دس ہزار طویل سڑکوں کاجال اور ہوائی سفر اور ریلوے کا بہترین نظام اور تیرہ گیگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت اس ملک کی معاشی ترقی کے اہم سنگ ہائے میل ہیں۔ ملائیشیابلاشبہ ایک مضبوط معاشی قوت ہے لیکن عالمی سیاست میں ملائشیاکاکردار کوئی بہت زیادہ نظر آنے والا نہیں ہے، خاص طورپر امت مسلمہ اپنی تاریخ کے جس بدترین دور سے گزررہی ہے اس میں ایک بہت بڑی مسلمان معاشی طاقت کا بہت بڑا سیاسی کرداربھی ضرور ہونا چاہیے تھا لیکن صبح کو پڑھے جانے والے اخبارات کی شہ سرخیاں ملائشیاکے اس طرح کے کسی کرادر سے خالی پائی جاتی ہیں۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ وہاں کی قیادت پہلے اپنے داخلی معاملات سے نبردآزما ہونا ضروری خیال کرتی ہو، تاہم پھر بھی ایک اہم مسلمان ملک کی حیثیت سے پوری دنیا کی مظلوم مسلمان قومیتوں کی نگہداشت اس ملک کاایک اہم ملی فریضہ ہے۔

Related Articles