مالیاتی شعبہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے

افغان بینک کے سربراہ کی تنبیہ

کابل،ستمبر۔افغانستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک اسلامک بینک آف افغانستان کے سربراہ سید موسی کلیم ال فلاحی نے کہا ہے کہ افغانستان میں بینکنگ کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔سید موسی کلیم کا کہنا ہے کہ افغانستان کا مالیاتی شعبہ ایک بحران سے گزر رہا ہے۔افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد دبئی منتقل ہو جانے والے سید موسی کلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں لوگ بڑی تعداد میں بینکوں سے رقم نکال رہے ہیں۔ وہاں پر صورتحال ایسی ہے کہ لوگ صرف پیسے نکال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بینک اور کوئی خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ اگست میں طالبان کے قبضے سے قبل ہی افغانستان میں بینکنگ کا شعبہ زیادہ مستحکم نہیں تھا اور کام کرنے کے لیے وہ بیرونی امداد پر ہی انحصار کرتا تھا۔عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی ملکی پیداوار کا 40 فیصد بین الاقوامی امداد پر مبنی ہے۔لیکن طالبان کے قبضے کے بعد سے مغربی ممالک نے بین الاقوامی امداد منجمد کر دی ہے اور افغانستان عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ میں رکھے گئے اپنے اثاثوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔سید موسی کلیم نے کہا کہ اس فیصلے کی بنا پر طالبان مالی امداد کے لیے دوسرے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اب روس اور چین کی طرف دیکھ رہے ہیں، اور چند دیگر ممالک کی جانب۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت جلد مذاکرات کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ چین نے پہلے ہی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینے کا خواہشمند ہے اور طالبان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔چینی ریاست کے زیر انتظام اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک حالیہ اداریے میں کہا گیا کہ افغانستان کی تعمیر نو میں بڑے تعاون کے امکانات ہیں اور چین اس حوالے سے بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن طالبان پر دباؤ ہے کہ وہ افغانستان کے مالی بحران کا جلد از جلد حل نکالیں۔ملک میں مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ملک کی کرنسی افغانی کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ عوام میں شدید بے چینی ہے اور کئی لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے تنبیہ کی ہے کہ ملک کی تقریباً چار کروڑ کی آبادی کے صرف پانچ فیصد حصے کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ روزانہ کھانا کھا سکیں۔ڈبلیو ایف پی کے مطابق ان کے سروے میں نصف سے زیادہ لوگوں نے کہا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں کم از کم ایک بار ان کے پاس گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔تو افغانستان کے لیے اپنی بقا کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی فنڈز اور بیرونی امداد فوری طور پر حاصل کر سکیں۔لیکن دوسری جانب امریکہ اور دیگر ممالک نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ چند شرائط کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں، جن میں طالبان کی خواتین اور اقلیتیوں کے ساتھ برتاؤ کی شرائط شامل ہیں۔سید موسی کلیم نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے دیے گئے اس بیان کے باوجود کہ خواتین کچھ عرصے کے لیے کام پر واپس نہیں آ سکتیں، کم از کم ان کے بینک میں خواتین نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ خواتین میں شروع شروع میں ایک خوف تھا، اور وہ دفتر نہیں آ رہی تھیں لیکن اب آہستہ آہستہ وہ واپس آنا شروع ہو گئی ہیں۔ سید موسی کلیم کا بیان پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے مماثلت رکھتا ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اب طالبان دنیا کو ایک قدرے بہتر اور بدلا ہوا چہرا دکھانا چاہ رہے ہیں جو کہ ان کے پہلے دور حکومت سے یکسر مختلف ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ اس وقت وہ لچک دکھا رہے ہیں اور تعاون کرنے پر تیار ہیں۔ اس وقت وہ پہلے جیسی پابندیاں اور قوانین لاگو نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے گروپس اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بارے میں کہتی ہیں کہ طالبان کے بیانات زمینی حقائق سے مماثلت نہیں رکھتے، جہاں ایسی کئی خبریں سامنے آئی ہیں کہ خواتین اور بچیوں کو نہ کام کرنے دیا جا رہا ہے نہ تعلیم حاصل کرنے سکول جانے کی اجازت ہے۔

Related Articles