گارڈ فادر کاالیکشن
امریکہ میں اس سال 3نومبر کو الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ گارڈ فادر ملک کا گارڈ فاردر صد رمنتخب ہونے جارہا ہے۔ ووٹرز اس دن صدر کے انتخاب کیلئے نمائندے چنیں گے۔ جو پھر14دسمبر کونیا صدر اور نائب صدر بھی منتخب کرسکتے ہیں اور ٹرمپ اور مائیک پنس کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ امریکہ میں دو پارٹی سسٹم کا مطلب یہ نہیں کہ اور کوئی سیاسی پارٹی وجود نہیں رکھتی۔گوکہ فیصلہ کن رن تو ریپبلکن اور ڈیموکریٹ میںہی پڑتا ہے۔ ویسے وہاں لبرٹیرین پارٹی، گرین پارٹی، Constitutionکونسٹیٹیوشن پارٹی اور دیگر کم اثر رکھنے والی پارٹیاں ہیں جو اتنا اثر تو نہیں رکھتیں کہ بڑے صدارتی کھیل میںپلڑا پلٹ سکیں۔البتہ ووٹر کو متحرک ضرور کردیتی ہیں اور ان کے نمائندے مقامی سطح کے عہدوں کیلئے ضرور منتخب ہوجاتے ہیں تاہم1861سے لیکر اب تک صرف انہی دو پارٹیوں میںسیہی جیتنے والا صدر بنتا ہے۔538ممبرز کے انتخابی کالج کم از کم270نشستیں لینے والا کامیاب کہلائے گا۔ حالیہ آنے والے انتخابات کے بڑے امیدوار بھی ڈونلڈ ٹرمپ (ریپبلکن) اور جو بائیڈن( ڈیموکریٹ) ہیں۔ اگر ٹرمپ کی سیاست کا ذکر کیا جائے تو جب سے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکہ میںسلطان راہی کی کوئی فلم شروع ہوگئی ہے۔ میکسیکو کی دیوار بنانا، امیگریشن پر پابندی ، اسرائیل کا دارلخلافہ یروشلم منتقل کرنے کا ارادہ، ماحولیات کے عالمی معاہدہ پیرس سے راہ فرار ، ایران پر پابندیاں، مودی کے ساتھ رومانس، نیتن یاہو کی بے جا سپورٹ، مخالفین کو فضا میںزائل کردینے کی دھمکیاں، جگہ جگہ سپر پاور ہونے کا گھمنڈ ظاہر کرنا۔ یہ ہے ٹرمپ، جو انسان کو انسان نہیں بلکہ کوئی کارٹون فلم کا کردار یا دنیا کو ویڈیو گیم سمجھتا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکہ میں پیور ریسرچ سینٹر کے مطابق ایک سروے میںٹرمپ کے پاس کل ووٹروں کے 43فیصد میںسے 66فیصد کی حمایت حاصل ہے جبکہ جوبائیڈن کی شرح سپورٹ46فیصد ہے۔ اس وقت امریکہ میں ٹرمپ کی کورونا وائرس پر کنفیوز کنٹرول کی وجہ سے سپورٹ کا گراف مزید نیچے جارہا ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے امریکہ میں آج کورونا کی وجہ سے دولاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ابھی تک صورتحال پر کنٹرول کیکوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔ ٹرمپ کے سپورٹر جو بائیڈن کو سوشلسٹ کہہ کے رائے عامہ اس کے خلاف کرنا چاہتے ہیںکیونکہ امریکہ میں سوشلزم کے خلاف عوام کی اتنی برین واشنگ کی جاچکی ہے کہ امریکی سوشلسٹ ہونے کو کوئی گالی یا گھٹیا جرم محسوس کرتے ہیں۔عام لوگ یہ بھی محسوس کرتے ہیںکہ ٹرمپ کے زمانے میںامریکہ میںنسل پرست کشیدگی اور نفرت خصوصی طور پر عروج پر گئی ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی سیاہ فام پولیس کے ہاتھوں نفرت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ عالمی سیاست میں جوبائیڈن اور ٹرمپ کے نقطہ نظرمیں فرق ہے۔ ریپبلکن ہمیشہ سے ہی دنیا پر کنٹرول بڑھانے کا سوچنے رہتے ہیں۔ ٹرمپ اس پالیسی کا جارحیت مزاج ماڈل ہے جوداخلی پالیسیوں پر ثانوی نظر رکھتا ہے جبکہ ڈیموکریٹ ان کے مقابلے میں داخلی مضبوطی اور استحکام کو اولین حیثیت دیتے ہیں،یوں تو دونوں ہی سرمایہ داری نظام کے رکھوالے اور بڑھاوا دینے والی ہیں لیکن ڈیموکریٹ کم از کم امریکہ میںرہنے والوں کے انسانی حقوق کا احساس رکھتے ہیں۔ اوباما کئیر پروگرام اس کی ایک دلیل ہے جسے ٹرمپ نے آتے ہی گول کردیا۔ ٹرمپ دراصل اپنے ہی شہریوں کی ہرسہولت کو بھی برنس کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یوں تو امریکی صدر کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ پیدائشی امریکی ہونا چاہیے۔اس کی عمر35برس سے کم نہیںہونی چاہییاور کم از کم 14برسوں سے مسلسل امریکہ میں رہا ہو۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسا نہ ہو کہ پیدا تو امریکہ میںہوا ہو لیکن بعد میںکسی اور ملک میںرہتا رہا ہے۔ امریکہ میں 40فیصد لوگ اٹھارہ سے پینتالیس برس کی عمروں کے ہیں۔ اس لحاظ سے امریکہ میں عمر رسیدہ آبادی خاصی بڑی ہے، یہی پچاس پلس جنہوں نے گزشتہ الیکشن میںٹرمپ کو زیادہ ووٹ دیئے۔ نوجوان نسل ٹرمپ کی زیادہ حامی نہیں ہے۔اس دفعہ توقع ہے کہ الیکشن میں30فیصد ووٹر غیر سفید فام ہوگا۔2020الیکشن کا سب سے بڑا ایشو کورونا ہی ہے۔ اور اس کے ساتھ جڑی سکٹرتی ہوئی معیشت ہے جسے ٹرمپ ہرحال میںچلانا چاہتا ہے۔ امریکہ میںاس وقت بھی کورونا کے باعث روزانہ ایک ہزار سے زائدلوگ مررہے ہیں۔لیکن ٹرمپ کاروبار زندگی کو معمول پر دکھانا چاہتا ہے اسی وجہ سے امریکہ میں کورونا کے حوالے سے ایک کنفیوڑن پایا جاتا ہے۔ کورونا پالیسی بدلتی رہتی ہے لیکن ٹرمپ کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کو اوباما کی طرح ہی چلانا چاہتا ہے۔وہ جامع زرعی پالیسی متعارف کرانا چاہتا ہے۔ اب امیدوار اپنی عمروں کے 73 اور 77 برس پورے کررہے ہیں۔دنیا کی نگاہیںان کی جانب ہیں۔ کیونکہ اگر انسانی جان و مال کی سلامتی کے حوالے سے امریکی صدور کی تاریخ دیکھی جائے تو کم ازکم دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک انہی صدور کے ہاتھوں کروڑوں انسان جنگوں اور حملوں کی صورت میں دنیا سے مٹائے جاچکیہیں اور ہرامریکی صدر کے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لیکن دنیا ہر آنے والیامریکہ کے صدرسے انسانی حقوق کی بحالی اور تحفظ کی امیدیںرکھتی ہے۔ کہتے ہیں تگڑے کی دھڑی اور تگڑے کا گز اپناہی ہوتا ہے، دنیا کو ہر نئے تگڑے سے اچھی امیدیں تو رکھنی ہی چا ہئیں۔