’ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوئے تو شاید جمہوریت باقی نہ رہے’ باراک اوباما

واشنگٹن، سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے جانشین صدر ٹرمپ پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نبھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن سے اپنے خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹرمپ آئندہ چار برسوں کے لیے مزید عہدہ صدرات پر فائز ہوتے ہیں تو امریکی جمہوریت کی بقا کو گہرے خطرات لاحق ہیں۔ سابق صدر نے امریکی رائے دہندگان سے اپیل کی کہ وہ، ”عامی شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری جمہوریت کے بنیادی اصول برقرار رہیں۔ کیونکہ ابھی یہی چیز تو داؤ پر لگی ہے۔ ہماری جمہوریت۔”انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں امید تھی وقت آنے پر صدر ٹرمپ بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔ ”لیکن انہوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ ان کو کام میں نہ تو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی مشترکہ میدان ڈھونڈنے کا کوئی شوق ہے۔ بطور صدر انہیں جو زبردست طاقت حاصل ہے اس کا استعمال اپنے اور اپنے دوستوں کے علاوہ کسی اور کی مدد کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایوان صدر اور عہدہ صدارت کو بھی انہیں ایک ریئلٹی شو کی طرح استعمال کرنے میں دلچسپی ہے تاکہ وہ اس کی مدد سے لوگوں کی اپنی توجہ حاصل کرسکیں جس کے وہ خواہاں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ میں اپنی ذمہ داریوں کے تئیں ابھی تک پختگی نہیں آئی ہے کیونکہ وہ اس کے لائق ہی نہیں ہیں۔”ڈیموکریٹک پارٹی کا چار روزہ کنونشن اس ہفتے پیر کو شروع ہوا تھا اور دوسرے روز منگل کو جو بائیڈن کو باضابطہ طور پر پارٹی کا امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔ کنونشن کے تیسرے روز پارٹی نے کمالہ ہیرس کو باضابطہ طور نائب صدراتی امیدوار کے لیے نامزد کیا جسے محترمہ ہیرس نے قبول کر لیا ہے۔وہ امریکی تاریخ میں اس عہدے کے لیے نامزد ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔ 55 سالہ کمالا ہیرس نے سابق صدر اوباما کے فوری بعد کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے جو بائیڈن کی حمایت کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ اس نازک موقع پر وہی امریکا کو ایک ساتھ لا سکتے ہیں۔جو بائیڈن نے صدر اوباما کے ساتھ بطور نائب صدر کام کیا تھا۔ اس مناسبت سے اوباما نے کہا کہ جب انہوں نے 2008 میں بائیڈن کو اپنا نائب صدر منتخب کیا تو انہیں اپنے ایک بھائی کی طرح پایا۔دوسری طرف صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اوباما کی وجہ سے ہی وہ صدر چنے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ان کے پیش رو صدر اوباما اور بائیڈن نے اچھی طرح سے کام نہیں کیا تھا اسی لیے وہ گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ”انہوں نے اتنے برے کام کیے تھے کہ آج میں آپ کے درمیان بطور صدر کھڑا ہوں۔ میں تو بڑا خوش تھا۔ میں تو اپنی پہلی زندگی میں عیش کرتا تھا۔” تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ کنونشن پہلی بار مکمل طور پر آن لائن ہورہا ہے جو جمعرات 20 اگست کو ختم ہوگا۔آخری روز خود جو بائیڈن اور ان کی نامزد نائب صدر کمالا ہیرس کنونشن سے خطاب کریں گی اور صدارتی انتخابات کے تئیں اپنی سیاسی بصیرت اور ویزن کو پیش کرنے کی کوشش کر یں گے۔ دونوں رہنما صدارتی امیدوار نامزد کرنے کے لیے پارٹی کارکنان کا شکریہ ادا کریں گے اور اس کے ساتھ پوری طرح سے انتخابی مہم کا آغاز ہوجائیگا۔ کنونشن کے دوسرے روز ‘لیڈر شپ میٹر” یعنی قیادت کی اہمیت پر بات چیت ہوئی تھی جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ بائیڈن کی قیادت میں امریکا میں حالات معمول پر واپس لوٹیں گے۔ دوسرے روز سابق صدر بل کلنٹن، سابق وزیر خارجہ جان کیری اور کولن پاویل جیسے رہنماؤں نے بھی کنونشن سے خطاب کیا تھا۔کنونشن کے پہلے روز خطاب کرنے والوں میں پارٹی میں صدارتی امیدواری کے لیے بائیڈن کے حریف برنی سینڈرز، سابق خاتو اول مشیل اوباما اور اوہائیو سے ریپبلکن پارٹی کے سابق گورنر جان کیشی سمیت کئی اہم لیڈر اور ڈیموکریٹ شخصیات شامل تھیں۔

Related Articles