افغانستان میں طالبان: خواتین کے اکیلے سفر کرنے اور گاڑیوں میں موسیقی چلانے پر پابندی
کابل،دسمبر۔افغانستان میں طالبان حکام نے کہا ہے کہ ملک میں طویل سفر کرنے والی خواتین کو اب اکیلے سفر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور اس نوعیت کے سفر میں ان کے ساتھ کسی نہ کسی قریبی مرد رشتہ دار کا ہونا لازمی ہو گا۔طالبان حکام نے کہا ہے کہ جو خواتین اکیلے طویل سفر کرنا چاہتی ہیں، انھیں سفر کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ملے گی۔یہ ہدایات طالبان کی وزارت برائے ’اخلاقیات اور برائی کی روک تھام‘ کی جانب سے جاری کی گئی ہیں۔خبروں کے مطابق وزارت کے ترجمان صادق عاکف مہاجر نے بتایا کہ جن خواتین نے 72 کلومیٹر (یا 45 میل) سے زیادہ فاصلے کا سفر کرنا ہے انھیں اب اپنے کسی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔اس کے علاوہ گاڑیوں کے مالکان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی بغیر حجاب خاتون کو اپنی گاڑیوں میں بیٹھنے کی اجازت نہ دیں۔تاہم انسانی حقوق کے کارکن افغان طالبان کے ان فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اْن کا موقف ہے کہ طالبان کی حجاب کی تشریح ابھی تک واضح نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حجاب کی تشریح سر کے بالوں کو ڈھانپنے سے لے کر چہرے یا پورے جسم کو ڈھانپنے تک مختلف ہو سکتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ زیادہ تر افغان خواتین پہلے ہی اپنے سروں پر سکارف لیتی ہیں اس لیے ان ہدایات کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
گاڑیوں میں موسیقی چلانے پر پابندی:خواتین کے اکیلے سفر کرنے پر پابندی کے علاوہ طالبان حکام نے ملک میں موسیقی اور ٹیلی ویڑن سیریلز کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کیے ہیں۔انھوں نے کہا ہے کہ ’آئندہ سے لوگ اپنی گاڑیوں میں موسیقی نہ چلائیں۔‘ اس سے قبل طالبان نے ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ اپنے چینلز پر ایسے سیریل اور ڈرامے دکھانا بند کر دیں جن میں خواتین اداکاری کرتی ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ نیوز سے وابستہ خواتین ٹی وی صحافیوں کو بتایا گیا کہ وہ حجاب کے بغیر ٹی وی پر پروگرام پیش نہیں کر سکتیں۔واضح رہے کہ رواں برس 15 اگست کو کابل پر قبضہ کے بعد طالبان نے یہ کہا تھا کہ وہ اپنے پہلے دور حکومت کی طرح اس مرتبہ خواتین کے حوالے سے سخت پالیسیاں نہیں اپنائیں گے۔افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد سے بی بی سی ورلڈ سروس کے ایڈیٹر برائے جنوبی ایشیائی امور ایتھیراجن امبراسن نے طالبان کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔وہ کہتے ہیں اگست کے وسط سے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے طالبان حکام بتدریج خواتین پر پابندیاں بڑھا رہے ہیں۔سابق افغان حکومت کے خاتمے کے بعد سے بیشتر صوبوں میں لڑکیوں کے سیکنڈری سکول اب بھی بند ہیں۔ طالبان کے ملک پر قبضے کے تقریباً ایک ماہ بعد لڑکیوں کو بہت سے شرائط کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان میں کلاس میں لڑکیوں اور لڑکوں کے الگ الگ بیٹھنے کا انتظام کرنے کی ہدایات دی گئیں تھیں۔اگرچہ مقامی طالبان حکام نے افغانستان کے کئی صوبوں میں لڑکیوں کے سکینڈری سکول دوبارہ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن وہاں اب بھی کئی لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔طالبان کے افغانستان کے اقتدار پر دوبارہ قبضے کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے مالی امداد کی بندش کے باعث اس وقت افغانستان کی مالی حالت بہت خراب ہو چکی ہے۔ کئی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان جلد ہی شدید قحط اور غربت کی لپیٹ میں آ سکتا ہے اور وہاں ایک انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔قحط اور غربت سے بچنے کے لیے طالبان نے دنیا کے طاقتور ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ کم از کم اس کے منجمند بینک اکاؤنٹس پر سے پابندی اٹھا لیں۔ اس کے علاوہ کئی تنظیموں نے بھی دنیا سے افغانستان کی مدد کی اپیل کی ہے۔ایتھیراجن کے مطابق عطیہ دینے والے ممالک نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں مالی مدد حاصل کر سکیں گے جب وہ خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔اس صورتحال کے پیش نظر دسمبر کے اوائل میں طالبان نے اپنے سپریم لیڈر کے نام سے ایک سرکاری فرمان جاری کیا تھا جس میں خواتین کے حقوق کو نافذ کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ تاہم ان ہدایات میں کہیں بھی لڑکیوں کی تعلیم کا ذکر نہیں تھا۔
’امریکہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے‘:دوسری جانب طالبان حکومت کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور شیر محمد عباس ستانکزئی نے کہا ہے کہ امریکا کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان اب ایک آزاد ملک ہے اور آزادانہ فیصلے کر رہا ہے۔اتوار کو ایک اجلاس میں انھوں نے کہا کہ ’امریکی فوجی رات کے اندھیرے میں افغانستان سے چلے گئے تھے۔‘ستانکزئی نے کہا کہ افغانستان اب آزاد ہے اور چار دہائیوں میں پہلی بار افغان باشندے گذشتہ چار ماہ سے آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’دشمن یہ نہ سوچیں کہ افغانستان 40 سال کی جنگ سے کمزور ہو گیا ہے کیونکہ ہم ضرورت پڑنے پر مزید 40 سال تک لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘افغانستان کے نائب وزیر خارجہ نے بھی اعتراف کیا کہ روزانہ سینکڑوں افغان باشندے معاشی مسائل کی وجہ سے ملک چھوڑتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سرحد پار کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا راستے میں ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔انھوں نے پڑوسی ملک سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ممالک اپنی سرحدیں کھولیں اور افغان مہاجرین کے لیے ویزا قوانین میں نرمی کریں۔خواتین کو دیے گئے حقوق کے بارے میں ستانکزئی کا کہنا تھا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو نوکری اور تعلیم کا حق حاصل ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ افغانستان کی ثقافت مغرب کی ثقافت سے مختلف ہے۔