افغانستان میں معاشی بحران

لوگ مرجائیں گے، ہم انھیں مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں

آئی سی آر سی اجلاس،دسمبر۔بین الاقوامی امدادی تنظیم، آئی سی آر سی کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ ماردینی نے کہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال تباہی کی طرف جارہی ہے اور امدادی ادارے اپنے ساتھ بے شک اقوامِ متحدہ کے دیگر اداروں کو بھی ملا لیں تب بھی افغانستان میں جاری معاشی بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی معاشی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ضروریات صرف عالمی برادری کے یکجا ہو کر افغانستان میں جاری معاشی بحران کو نمٹانے کے بارے میں سنجیدگی دکھانے اور حل ڈھونڈنے سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔بین الاقوامی فلاحی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ ماردینی اس وقت او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔بی بی سی سے خصوصی گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ‘یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی بے سرو سامانی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے بھی ملے ہیں، جنھوں نے اپنا سامان تک بیچ دیا ہے تاکہ بچوں کو کھانا کھلا سکیں۔ معاشی بحران اس درجے کا ہے کہ اس وقت سرکاری و نجی اداروں کے چھ لاکھ ملازمین تنخواہوں کے منتظر ہیں۔ افغانستان کا انسانی بحران وہاں جاری معاشی بحران سے جڑا ہے۔’انھوں نے کہا کہ افعانستان اس وقت معاشی بحران سے دو چار ہے۔افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکہ منجمد کرچکا ہے جبکہ طالبان کے آنے کے بعد مالی امداد بھی بند ہوچکی ہے۔ ملک میں جہاں مہنگائی بڑھ چکی ہے وہیں آدھی سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

افغانستان میں سکیورٹی ایک بڑا چیلنج:آئی سی آر سی کے 23 ہسپتال قومی و صوبائی سطح پر لوگوں تک ایمرجنسی اور پرائمری مدد فراہم کررہے ہیں۔ اس وقت آئی سی آر سی کے 1800 ملازمین افغانستان کی 11 سائیٹس پر موجود ہیں لیکن آئی سی آر سی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس وقت سکیورٹی ایک بڑا چیلنج ہے۔وہ کہتے ہیں کہ’افغانستان کے کئی صوبے کشیدگی سے دوچار ہیں۔ ہم اب بھی زیادہ آبادی والے علاقوں میں بار بار حملے ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں لوگ زخمی ہو کر ہسپتال آتے ہیں اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جہاں ہسپتال تو ہیں لیکن وہاں علاج نہیں ہورہا۔ دوسری جانب، حملوں کے نتیجے میں لوگوں تک امداد پہنچانا ایک مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔ لیکن اس دوران ہم ریڈ کراس اور دیگر فلاحی اداروں کی مدد سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔’واضح رہے کہ رواں برس اکتوبر میں امریکی وفد نے قطر میں طالبان کے نمائندگان سے ملاقات کے دوران افغانستان کو فلاحی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ افغانستان میں اپنے رہ جانے والے شہریوں کو بحفاظت نکالنے کے بارے میں طالبان سے براہِ راست بات کی تھی۔یہ پہلی مرتبہ تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد دونوں فریقین آمنے سامنے بیٹھ کر بات کررہے تھے۔ حالانکہ امریکہ نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ اس (ملاقات) کا مطلب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف نہ سمجھا جائے۔اسی طرح پاکستان اپنے طور پر امریکہ سمیت دیگر ملکوں کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کا حامی ہے۔ اور اسی لیے مختلف بیانات میں وزیرِ اعظم سے لے کر وزیرِ خارجہ تک طالبان سے بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے پر زور دے رہے ہیں۔اسی سلسلے میں 19 دسمبر کا وزرائے خارجہ اجلاس اہمیت کا حامل ہے۔ جس دوران پاکستان امید کررہا ہے کہ طالبان کو عالمی سطح پر پیش کیا جائے اور ان سے امریکہ اور دیگر ممالک کی امیدوں کی پاسداری کروائے۔ ان امیدوں میں خواتین کی تعلیم اور انسانی امداد سرفہرست بتائی جاتی ہے۔طالبان سے بات چیت جاری کرنے کے بارے میں رابرٹ ماردینی نے کہا کہ ‘آئی سی آر سی پچھلے 30 برسوں سے افغانستان میں ہے اور طالبان سے بات چیت کرتی رہی ہے۔ ہم نے اتنے برسوں میں طالبان سے بات چیت اسی لیے بھی جاری رکھی کیونکہ اس سے ہمارے کام میں رکاوٹ نہیں آتی۔ جن لوگوں تک ہمیں پہنچنا ہوتا ہے، جیسے کہ کسان یا مزدور، ان تک ہم پہنچ جاتے ہیں۔’
’غذائی قلت عروج پر ہے‘:یاد رہے کہ اگست میں افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ سمیت سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین، صحافی، گلوکار، اداکار سب یکے بعد دیگرے وہاں سے جان بچا کر نکل گئے۔ اس دوران پاکستان کو بہت سے اداروں نے راہداری کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ٹھکانوں کا رْخ کیا۔ لیکن اس دوران کئی ایسے ادارے بھی تھے، جو افغانستان سے نہیں نکلے۔خیال رہے کہ ان میں جہاں ریڈ کراس، ایمنسٹی انٹرنیشنل شامل ہیں، وہیں آئی سی آر سی بھی اپنے عملے سمیت اب تک افغانستان میں فلاحی امداد فراہم کررہی ہے۔ ایسے میں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اداروں کو خود پر حملہ ہونے کا ڈر نہیں تھا؟رابرٹ ماردینی نے کہا کہ وہ اس سے پہلے بھی افغانستان کی صورتحال دیکھ چکے ہیں لیکن اس وقت صورتحال ہم سب سے بڑھ کر ہے۔ ‘اس وقت قندھار میں غذائی قلت اپنے عروج پر ہے۔ ہمیں وہاں مقیم رہائشیوں کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ شہر یا صوبے کی کیا صورتحال ہے۔ اس سے ہم ان علاقوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ جانے کا خیال اس وقت نہیں آسکتا کیونکہ اس وقت ہمیں یہیں رہ کر حالات بہتر کرنے ہیں۔’واضح رہے کہ اس وقت او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس پر تمام تر توجہ مرکوز ہے، وہیں اس ‘اہم’ اجلاس میں شریک ہونے والے ممالک کے افغانستان میں اپنے اپنے مفادات ہیں۔ پاکستان نے بارہا مختلف فورمز پر بیانات میں کہا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی ‘گیم یا گروپ’ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔رابرٹ ماردینی نے بتایا کہ ‘ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں آنے والے ممالک اور ڈونرز کے سیاسی مقاصد اور مفادات بھی ہیں۔ لیکن سیاسی مقاصد انسانی بحران پر غالب نہیں آسکتے کیونکہ لوگ مرجائیں گے۔ اور ہم انھیں مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تمام ممالک اپنے سیاسی مقاصد ایک طرف رکھ کر، افغانستان کی مدد کرنے کے بارے میں بات کریں۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی بھی بات کرنا بے معنی ہے۔’

Related Articles