جوزف گوئبلز: نازی وزیر برائے پراپیگینڈا جو جھوٹ کو ’سچ‘ میں بدلنے کا گْر جانتے تھے
برلن،نومبر۔جرمنی کے سابق ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کے پراپیگینڈے کے وزیر جوزف گوئبلز سے منسوب ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’جھوٹ کو اگر بہت کثرت سے دہرائیں تو وہ سچ بن جاتا ہے۔‘اور انھوں نے نازی حکومت میں رہتے ہوئے ایسے ہی کیا اور بہت حد تک، چاہے کچھ عرصہ کے لیے ہی سہی، اس میں کامیاب بھی رہے۔جوزف گوئبلز سے جتنا بھی اختلاف کریں لیکن یہ بات سچ ہے کہ آمروں کو ہمیشہ ہی ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا آرٹ جانتے ہوں یا کم از کم جھوٹ کو اتنی مرتبہ ضرور دہرائیں کہ لوگوں کو یہ سچ معلوم ہونے لگے۔کیا کسی کو صدام حسین کے وزیرِ اطلاعات محمد سعید الصحاف یاد ہیں، جو کہتے تھے کہ ’کافر بغداد کے دروازوں پر سینکڑوں کی تعداد میں خودکشیاں کر رہے ہیں‘ یا ’وہ یہاں ہتھیار ڈالنے یا اپنے ٹینکوں میں جلنے کے لیے آئے ہیں۔‘ان کا یہ جملہ بھی یاد رہے گا جب بغداد بموں کی شدت سے لرز رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ امریکی کہیں نظر آ رہے، وہ یہاں آنے کی جرات نہیں کریں گے۔ویسے اگر سچ کہوں تو ان دونوں کا آپس میں مقابلہ کرنا شاید گوئبلز اور نہ ہی الصحاف کے ساتھ انصاف ہو۔گوئبلز ایک سفاک اور ایک ایسی سوچ کے مالک شخص تھے جنھیں پتہ تھا کہ انھوں نے کیا کرنا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں، جبکہ الصحاف جب اس نوعیت کے بیانات دے رہے تھے تو اس وقت بھی بین الاقوامی صحافی برادری ان کو مذاق میں ہی لے رہی تھی اور اسی لیے انھیں عراق کے وزیرِ دفاع علی حسن الماجد عرف ’کیمیکل علی‘ کے ہی مقابلے میں ’کومیکل علی‘ یعنی ’مزاحیہ علی‘ کا نام دیا گیا تھا۔پر پراپیگینڈا بہرحال پروپیگینڈا ہے۔ شاید اس وقت بھی الصحاف لاکھوں عراقیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہوں کہ امریکی ڈرپوک ہیں اور وہ ان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے یا اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو عراق اْن کے لیے جہنم ثابت ہو گا۔ گوئبلز کو بھی ہٹلر نے کچھ ایسا ہی کام سونپا تھا اور انھوں نے اپنے ’آقا‘ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اسے نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا بھی تھا۔
گوئبلز کون تھے؟جوزف گوئبلز ایڈولف ہٹلر کے دور میں نازی وزیر برائے پراپیگنڈا تھے جنھوں نے جرمن عوام کو نازی حکومت کی حمایت پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران زیادہ تر جرمن عوام کی حمایت کو برقرار بھی رکھا۔نازی پروپیگینڈا کے سربراہ کے طور پر جوزف گوئبلز نے بہت سے جھوٹ تیار کیے جنھوں نے جرمن عوام کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا۔ یہ گوئبلز ہی تھے جو جرمنوں سے ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ وہ ہٹلر سے اپنی عقیدت کو اور بھی مظبوط بنائیں۔ انھوں نے 1933 میں برلن میں ’غیر جرمن‘ کتابوں کو جلانے کا منصوبہ بھی بنایا اور پھر کتابیں جلانے کے اس پروپیگینڈا کو پھیلانے کے لیے موشن پکچرز کا استعمال بھی کیا۔جوزف گوئبلز 29 اکتوبر 1897 کو جرمنی کے شہر راہٹ میں ایک کیتھولک شخص فریڈرک گوئبلز، جو ایک فیکٹری میں کلرک تھے، اور کیتھرینا ماریا اوڈن ہاؤسن کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔انھوں نے 1920 میں ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے جرمن ادب کی تعلیم حاصل کی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران انھیں فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا کیونکہ بچپن میں انھیں پولیو ہو گیا تھا اور اس وجہ سے وہ کچھ لنگڑا کر چلتے تھے۔گوئبلز کئی دوسرے جرمنوں کی طرح جنگ کے مایوس کن نتائج کی وجہ سے قوم پرستی کے جوش میں مبتلا تھے۔ ان کی شخصیت مختلف سانچوں میں ڈھلتی ڈھلتی بالآخر ہٹلر کے نازی خیالات کا منتج بنی اور یہی ان کا عروج اور یہی ان کا زوال تھا۔یونیورسٹی کے دنوں میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیالات کی طرف بھی رجحان رہا، جوانی میں اینٹی بورڑوا رہے اور نازی پارٹی میں شمولیت سے پہلے وہ یہود مخالف بھی نہیں تھے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہائی سکول میں جن اساتذہ کی سب سے زیادہ قدر کرتے تھے وہ یہودی تھے، اور ان کا ایک ایسی لڑکی سے تعلق بھی رہا تھا جو ہاف یعنی آدھی یہودی تھی۔
نازی پارٹی میں شمولیت:جوزف گوئبلز ایک اعلیٰ پائے کے خطیب تھے اور اسی وجہ سے وہ نازی پارٹی میں آہستہ آہستہ ترقی کرتے رہے اور کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں۔ نومبر 1926 میں ہٹلر نے انھیں برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی رہنما مقرر کیا۔ این ایس ڈی اے پی یا نازی پارٹی، باویریا میں قائم کی گئی تھی اور اس وقت تک جرمن دارالحکومت برلن میں عملی طور پر پارٹی کا کوئی باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا۔کہا جاتا ہے کہ گوئبلز کی نئی تقرری ان کے اس ’دانشمندانہ‘ فیصلے کی مرہون منت تھی جو انھوں نے این ایس ڈی اے پی کے ’بائیں بازو کے‘ سرمایہ دارانہ دھڑے کے گریگور سٹراسر اور ’دائیں بازو‘ کے رہنما ہٹلر کے درمیان تنازع میں کیا تھا۔ وہ فیصلہ کیا تھا؟ تاریخ دانوں کے مطابق ہوا یوں کہ اس تنازع میں گوئبلز نے اپنے ہی اندرونی عقائد کے خلاف ہٹلر کا ساتھ دے کر موقع پرستی کا مظاہرہ کیا اور ہٹلر کے مزید قریب ہو گئے۔نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد گوئبلز نے قومی پراپیگینڈا مشینری کا کنٹرول سنبھالا۔ ان کے لیے عوامی روشن خیالی اور پراپیگینڈا کے لیے ایک قومی وزارت بنائی گئی، اور وہ نو تشکیل شدہ ’چیمبر آف کلچر‘ کے صدر بن گئے۔ اس صلاحیت میں وہ پریس، ریڈیو، تھیٹر، فلمیں، ادب، موسیقی اور فنون لطیفہ کو کنٹرول کرتے تھے اور ان کے ذریعے پراپیگینڈا چلاتے تھے۔گوئبلز نے ہٹلر کی شخصیت کے گرد ’فیوہرر‘ کی ایک افسانوی تخلیق بنائی تھی اور پارٹی کی تقریبات اور مظاہروں میں اسے بار بار دہرایا جاتا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو برین واش کرنا تھا تاکہ لوگ نازیوں کو سراہیں اور ہٹلر کو اپنا مسیحا جانیں اور اسی کامیاب پراپیگینڈا پالیسی کے نتیجے میں جرمن عوام کی سوچ نازی ازم میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ وہ ایک اچھے لکھاری اور خطیب تو تھے ہی اس لیے ان کی لکھی ہوئی تقاریر عوام میں بہت مقبول ہوتی گئیں جس سے ان کا یہود مخالف جذبہ مزید بڑھ جاتا۔
1929-1945 تک: نازی پارٹی کے پراپیگینڈا لیڈر:پراپیگینڈا کی جدید تکنیکوں میں گوئبلز کی مہارت کو دیکھنے کے بعد ہٹلر ان سے اتنا متاثر ہوئے کہ انھوں نے انھیں 1929 میں نازی پارٹی کے لیے پروایگینڈا کا رائچ لیڈر مقرر کیا۔گوئبلز نے پراپیگینڈے کے مقاصد کے لیے ریڈیو اور فلم کے استعمال کا آغاز کیا۔ انھوں نے نازیوں کی ریلیوں، تقاریر اور دیگر تقریبات کی فلمیں تیار کیں جو میٹنگوں میں دکھائی جانے لگیں۔ اس کام کا بنیادی مقصد اپنے حامیوں کو مزید متاثر اور متحرک کرنا تھا۔گوئبلز نے 1932 میں جرمن صدارت کے لیے ہٹلر کی انتخابی مہم جدید بنیادوں پر چلائی۔ انھوں نے اپنے پراپیگینڈے میں دکھایا کہ ہٹلر پورے جرمنی میں لوگوں سے ملنے کے لیے نقل و حمل کے جدید ترین طریقے استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ ہٹلر وہ صدارتی انتخابات ہار گئے لیکن جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا۔ نازی پارٹی 37 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بنی۔
1933-1945 تک: پراپیگینڈا اور عوامی روشن خیالی کی وزارت:جرمنی کے صدر وان ہینڈنبرگ نے مخلوط حکومت بنانے کے بعد ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا۔ 13 مارچ 1933 کو ہٹلر نے عوامی روشن خیالی اور پراپیگینڈا کی وزارت قائم کی اور گوئبلز کو اس کا وزیر مقرر کیا۔ پینتیس سال کی عمر کے گوئبلز ہٹلر کی کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر تھے۔گوئبلز نے نازی خیالات کو پھیلانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی اور ساتھ ہی نازی عقائد یا حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کے بیانات کو میڈیا پر سینسر کیا جانے لگا۔ اس طرح دوسری آواز کے عوام تک پہنچنے کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا اور جو بھی ان تک جاتا وہ ہٹلر اور گوئبلز کی مرضی سے جاتا۔اس کی ایک بڑی مثال 10 مئی 1933 کو برلن میں سامنے آئی جب نام نہاد ’غیر جرمن‘ کتابیں جلاتے وقت گوئبلز نے ہمبولڈ یونیورسٹی کے سامنے اعلان کیا کہ ’جرمن روح کی صفائی‘ ہو رہی ہے۔ انھوں نے برلن کے اوپرا ہاؤس میں منعقد اس تقریب میں فاتحانہ انداز میں ہجوم سے کہا کہ ’انتہائی یہودی دانشوری کا دور ختم ہو رہا ہے۔‘نازی طلبا نے جن کتابوں کو جلایا ان میں یہودیوں، لبرل، بائیں بازو، امن پسندوں اور غیر ملکیوں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل تھیں۔پورے جرمنی میں لائبریریوں کو ہدایت کی گئی کہ غیر ملکی کتابوں سے پاک ہو جائیں۔ گوئبلز جرمن روح اور جرمن اقدار کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو بھڑکاتے رہے۔ انھوں نے متعدد مرتبہ اس بات پر زور دیا کہ جرمن اقدار میں لیڈر کے ساتھ وفاداری اور آریائی نسل کی پاکیزگی سب سے اہم ہیں۔
گوئبلز، ایک ’لبرل‘ قدامت پسند:اگر گوئبلز کو ہٹلر کے ساتھ وابستگی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ان کی بہت سی ثقافتی پالیسیاں کافی حد تک لبرل بھی نظر آتی ہیں، لیکن جیسا کہ سیاست میں آپ کو بہت سے رنگ دکھانے پڑتے ہیں اسی طرح گوئبلز بھی اپنے مختلف رنگ دکھاتے رہے۔1937 اور 1938 میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر ذرا کم ہوا۔ اس دوران وہ چیکوسلواکیہ کی ایک فلم سٹار کے ساتھ محبت کرنے لگے اور تقریباً اپنے کیریئر کو ختم کرتے کرتے رہ گئے۔ لیکن اس سے پہلے 1931 میں ان کی شادی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی میگڈا رِٹشل سے ہو چکی تھی۔ میگڈا سے ان کے چھ بچے ہوئے۔گوئبلز کی سابق سیکریٹری برنہلڈے پومسل نے 105 سال کی عمر میں گارڈین اخبار میں 15 اگست 2016 کو چھپنے والے اپنے آخری انٹرویو میں گوئبلز کی متضاد شخصیت کے بارے میں ایک بہت دلچسپ بات کی تھی۔انھوں نے سٹالن گراڈ کی لڑائی کے بعد کیے جانے والے گوئبلز کے پراپیگینڈا کے حوالے سے ان کی 1943 کی تقریر کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کوئی بھی اداکار ایک مہذب، سنجیدہ شخص سے بڑبڑانے والے بدمعاش آدمی میں اس سے بہتر تبدیل نہیں ہو سکتا۔۔ دفتر میں ان کی شخصیت میں ایک قسم کی عمدہ خوبصورتی تھی، اور پھر انھیں وہاں ایک بپھرے ہوئے بونے کی طرح دیکھنا۔ آپ اس سے زیادہ تضاد کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘
گوئبلز کی ایک دن کی جرمن چانسلری اور موت:پومسل اس وقت گوئبلز کی سیکریٹری ہی تھیں جب دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد گوئبلز نے خود کشی کر لی تھی۔جب ہٹلر کو خبر ملی کہ اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور روسی فوجی ان کے بنکر کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں تو انھوں نے اپنی اہلیہ سمیت 30 اپریل کو خود کشی کر لی۔اس کے بعد ہٹلر کی وصیت کے مطابق گوئبلز نے ایک دن کے لیے جرمنی کے چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اپنے لیڈر کی تقلید کرتے ہوئے خود کو روسی فوجیوں کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔ انھوں نے اور ان کی اہلیہ نے پہلے اپنے چھ بچوں کو زہر (کہا جاتا ہے کہ وہ سائنائیڈ تھا) دیا اور اس کے بعد دونوں نے اپنی جان لے لی۔