جی ٹوئنٹی سمٹ، موسمیاتی تبدیلیاں سب سے اہم موضوع

روم،اکتوبر۔دنیا کی طاقت ور معیشتوں کے سربراہان کے اجلاس میں کورونا وبا، موسمیاتی تبدیلیاں اور عالمی سطح پر بڑی کمپنیوں پر عائد ہونے والے کم از کم ٹیکس جیسے موضوعات فوقیت رکھتے ہیں۔ جی ٹوئنٹی سمٹ کا میزبان اٹلی کا دارالحکومت روم ہے۔جی ٹوئنٹی کے ابتدائی اجلاس میں عالمی سطح پر صحت اور اقتصادیات پر بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر اہم رہنماؤں نے ایرانی جوہری پروگرام پر بھی گفتگو کی۔اٹلی کو توقع ہے کہ جی ٹوئنٹی سمٹ کے دوران وہ عالمی معیشت کا اسی فیصد حصہ رکھنے والے ممالک سے جو کہ قریب اِسی مقدار کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے ذمہ دار ہیں، سے موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے حوالے سے کچھ اہم وعدے کروا سکے گا۔ خاص طور پر جب اکتیس اکتوبر سے سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔گزشتہ شب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خبرادر کیا کہ گلاسکو کانفرنس ناکام ہو سکتی ہے کیوں کہ اب بھی زیادہ تر آلودگی کے ذمہ دار ممالک کی جانب سے کچھ خاص اقدامات کرنے کے اشارے نہیں ملے۔ انہوں نے جی ٹوئنٹی ممالک کے لیڈرز کو کہا کہ وہ خود آپس میں اور ترقی پذیر ممالک کے مابین بد اعتمادی کو ختم کریں۔ گوٹیرش نے روم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، حکومتوں کی جانب سے حالیہ اور سابقہ وعدوں کے باوجود عالمی درجہ حرارت دو اشاریہ سات ڈگری کی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ماحولیات سے متعلق رپورٹ کے مطابق درجنوں ممالک کی جانب سے سن 2050 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مکمل اخراج کو ختم کر دینے کے وعدوں پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے تو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو اشاریہ دو ڈگری سیلسیئس پر روکا جاسکتا ہے۔ یہ پیرس معاہدے کے دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے ہدف کے قریب ہے۔گوٹیرش نے عالمی سیاست کو کورونا وبا کے خلاف کامیاب نہ ہونے کے لیے مورد الزام ٹہرایا۔ انہوں نے کہا کہ امیر ممالک کے عوام کو اب ویکیسن کی تیسری خوراک بھی ملنا شروع ہو گئی ہے لیکن افریقہ کی صرف پانچ فیصد آبادی کو ویکسین کی مکمل خوراکیں ملی ہیں۔اس حوالے سے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اعلان کیا کہ ان کا ملک ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی بیس ملین خوراکیں فراہم کرے گا۔ جی ٹوئٹی کے لیڈرز اس بات پر اتفاق کرنے کی کوشش میں ہیں کہ سن 2023 تک پندرہ فیصد کے مساوی عالمی کارپوریٹ ٹیکس کو نافذ کیا جاسکے۔ اس کا مقصد بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے ایسے ممالک میں پیسہ ذخیرہ کرنے کو روکنا ہے جہاں کم ٹیکس عائد ہوتا ہے۔

Related Articles