اسکوئڈ گیم کے کردار حقیقی زندگی پر مبنی ہیں: ہدایت کار

سیئول،اکتوبر۔آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارم نیٹ فلکس کی مقبول ترین کورین سریز اسکوئڈ گیم ہدایت کار ہنگ ڈْنک یوک کی اپنی ذاتی زندگی پر مبنی ہے۔ ہدایت کار کا ماننا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ معاشی عدم مساوات کے گرد گھومنے والی یہ سیریز دنیا بھر میں مقبول ہوئی ہے۔جنوبی کوریا کے ہدایت کار ہنگ ڈْنک یوک نے گزشتہ ماہ اسکوئڈ گیم کے ذریعے ٹیلی وڑن پر ڈیبیو دیا تھا۔ اب ان کی سیریز کو دنیا بھر سے 11 کروڑ 10 لاکھ صارفین دیکھ چکے ہیں۔اس سیریز میں قرض میں ڈوبے لوگوں کو مجبوری کے عالم میں ایک ایسے کھیل کا حصہ دکھایا گیا ہے جس میں سیکڑوں افراد کو پیسے کا لالچ دے کر بچوں کے کھیل کھلائے جاتے ہیں اور ہارنے والے کو گولی مار دی جاتی ہے۔یہ سیریز نو اقساط پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ہدایت کار کا کہنا ہے کہ وہ اسکوئڈ گیم میں دکھائے جانے والے کھیل کھیل کر ہی جنوبی کوریا کے شہر سیئول میں پلے بڑھے ہیں۔خبر وں کے مطابق ہنگ ڈْنک یوک کے کام میں سماجی برائیوں، طاقت اور انسانی مصائب کا تنقیدی جواب ظاہر ہوتا ہے جب کہ ان کی کہانیوں کے متعلقہ کردار بھی ان کی زندگی کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ اسکوئڈ گیم کا کردار سانگ ہو، جسے ایک پریشان سرمایہ کار بینکر دکھایا ہے جو صارفین کے پیسے چرا کر اسے اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیتا ہے، کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح اسکوئڈ گیم کے کردار سونگ گی ہن ایک جنونی جوا باز اور نوکری سے برخاست کیا جانے والا شخص، جسے اس کی بیوہ والدہ نے پالا ہوتا ہے۔ ہنگ ڈْنک یوک کی پرورش بھی ان کی بیوہ والدہ نے کی ہے۔خبر وں کے مطابق اسکوئڈ گیم کے ہدایت کار نے بتایا کہ "بیرونِ ملک جا کر تعلیم حاصل کرنا بھی ان کی ذاتی زندگی کا ہی تجربہ ہے جس نے سیریز کے کردار علی کو جنم دیا، جو پاکستان سے روزگار کی خواہش لیے جنوبی کوریا منتقل ہوتا ہے جسے وہاں بد سلوکی اور استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔”ہنگ ڈْنک یوک کا کہنا ہے کہ کوریا ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہیں اور وہ خود کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ایسے معاشرے میں زندہ رہے اور اچھی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔انہوں نے بتایا کہ جب وہ 24 برس کی عمر میں برطانیہ گئے تھے ایئرپورٹ کے امیگریشن اسٹاف کے سفید فام عملے نے مجھے منفی انداز سے دیکھتے ہوئے امتیازی تبصرہ کیا۔ان کے بقول انہیں لگتا ہے کہ وہ اس وقت علی جیسے تھے۔ہنگ ڈْنک یوک کے مطابق انہوں سیئول نیشنل یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی تھی جہاں وہ جمہوریت کے حامی کارکن بنے۔انہوں نے اسکوئڈ گیم کے مرکزی کردار سانگ گی ہنگ کا نام اپنے ایک دوست اور مہم چلانے والے ساتھی کے نام پر رکھا۔ان کا کہنا ہے کہ شروع میں وہ فلمیں وقت گزارنے کے لیے دیکھتے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی والدہ کا کیمرا لیا، انہیں معلوم ہوا کہ کسی منظر کو کیمرے میں عکس بند کر کے دوسروں کو دکھانا بے حد خوشی کا باعث ہے۔ اور اس نے ان کی زندگی بدل دی۔ہنگ ڈْنک یوک کی 2007 میں ریلیز ہونے والی پہلی فیچر فلم مائے فادر بھی حقیقی کہانی پر مبنی ہے جس میں ایک گود لیے جانے والے کورین لڑکے کی کہانی دکھائی ہے جو اپنے اصلی والد کو ڈھونڈتے ہوئے سزائے موت کے قیدی تک جا پہنچتا ہے۔اسکوئڈ گیم میں ایسے پریشان کن تجربات کا بھی عکس ہے جنہوں نے ماڈرن کوریائی باشندوں کی نفسیات کو تشکیل دیا ہے۔ ان میں 1997 کا ایشیائی مالی بحران اور 2009 میں سینگ یونگ موٹرز کا ملازمین کو برخاست کرنا شامل ہے۔ اس دوران لوگوں کو اپنی جانیں لیتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔سینگ یونگ موٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے ہدایت کا کہنا ہے کہ میں سیریز میں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص راتوں رات غربت کے دلدل میں پھنس سکتا ہے۔کوریا کی سونگ سیئول سائبر یونیورسٹی کے پروفیسر جیسن بیچرویس کا کہنا ہے کہ اسکوئڈ گیم کی دنیا بھر میں کامیابی سے قبل ہی ہنگ ڈْنک یوک معروف اور بہترین فلم ساز ہیں۔ان کے بقول ہنگ ڈْنک یوک معاشرے کے مسائل پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ بیک وقت صارفین کو تفریحی بھی فراہم کرتے ہیں۔سیچوان یونیورسٹی پٹس برگ انسٹیٹیوٹ کی کورین فلموں کی ماہر آرم جونک کا کہنا ہے کہ نیٹ فلکس کی سیریز سے قبل ہدایت کار ہنگ ڈْنک یوک کی سماجی مسائل پر کام کرنے کی تاریخ ہے۔ان کے بقول ہنگ ڈْنک یوک نے اسکوئڈ گیم دس برس قبل لکھی گئی تھی لیکن سرمایہ لگانے والوں نے اسکرپٹ پڑھنے کے بعد ان سے کہا کہ یہ بہت ہی غیر حقیقی، مضحکہ خیز اور عجیب کہانی ہے۔آرم جونک نے کہا کہ ہدایت کار نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کی سیریز دنیا بھر میں مقبول ترین سیریز بن جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں دنیا بھر کے ناظرین خاص طور پر عالمی وبا کے دوران معاشی عدم مساوات کے موضوع سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جس کی تصویر اسکوئڈ گیم میں پیش کی گئی ہے۔

Related Articles