بنگلہ دیش: کیا روہنگیا پناہ گزین سیکورٹی کے لیے خطرہ ہیں؟
ڈھاکا،اکتوبر۔بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ باہم مخالف مسلح گروہ اپنی برتری ثابت اور کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مخالفین کو اغوا کیا جا رہا ہے۔جنوبی بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں مسلح جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم نے حکام کو چوکنا کر دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز کاکس بازار میں واقع روہنگیا کیمپ میں ہونے والے حملے میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 20 دیگر زخمی ہوگئے۔ یہ گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے پناہ گزین کیمپ میں تشدد کا تازہ ترین واقعہ تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ مسلح گروہ نے کیمپ میں واقع ایک مدرسے میں فائرنگ اور چاقو زنی کی، جس سے تین ٹیچر، دو رضاکار اور ایک طالب علم کی موت ہو گئی۔بڑے بڑے پناہ گزین کیمپوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم اور اختلافات ستمبر میں اس وقت کھل کر سامنے آگئے تھے جب حقوق انسانی کے لیے سرگرم ایک معروف روہنگیا رہنما کا قتل کر دیا گیا تھا۔محب اللہ نامی 48 سالہ روہنگیا رہنما کو کیمپ میں واقع ان کے دفتر میں نامعلوم افراد نے گولی مار کرہلاک کر دیا تھا۔ پیشے سے ٹیچر محب اللہ بے وطن روہنگیاؤں کی اہم آواز سمجھے جاتے تھے۔ حملہ آوروں کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
روہنگیا سیکورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ‘، وزیراعظم:اگست 2017 میں اپنی جان بچانے کے لیے میانمارسے سات لاکھ 30 ہزار سے زائد روہنگیا ہجرت کرکے پڑوسی ملک بنگلہ دیش پہنچنے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک پناہ گزین کیمپوں میں ہونے والے تصادم میں کم از کم 89 روہنگیاؤں کی موت ہوچکی ہے۔اس کے علاوہ مبینہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث 109 پناہ گزین سن 2018 میں بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ تصادم میں مارے گئے تھے۔بہت سے روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کو ایک محفوظ مقام سمجھتے ہیں، جو میانمار کی سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے یہا ں پناہ گزین ہیں۔ بودھ مت اکثریتی میانمار کی حکومت روہنگیاوں کو ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتی اور ان کی آزادیاں بھی بڑی حد تک محدود کر رکھی ہیں۔لیکن بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیح حسینہ نے جون میں کہا تھا کہ روہنگیا ” بنگلہ دیش اور خطے کی سیکورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ” بنتے جا رہے ہیں۔
صرف چند لوگ ہی شرپسند ہیں :انسانی حقوق کے کارکن اور کاکس بازار میں سیکورٹی کی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھنے والے نور خان کہتے ہیں کہ کیمپوں کے اندر ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں میں منشیات کی غیر قانونی تجارت اور اغوا شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں ان کیمپوں پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کم از کم تین مسلح روہنگیا جرائم پیشہ گروہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔نور خان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’حالانکہ فی الحال یہ تصادم کیمپوں تک ہی محدود ہیں تاہم یہ مستقبل میں باہر بھی پھیل سکتے ہیں۔” انہو ں نے کہا،’’یہ مسلح گروہ مقامی اور بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں سے بھی ہتھیار خریدنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس سے کاکس بازار میں صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔ وہ ان ہتھیاروں کو مقامی بنگلہ دیشی مجرموں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں۔‘‘نور خان نے تاہم زور دے کر کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کا ایک بہت چھوٹا سا گروپ ہی تصادم کے ان واقعات میں ملوث ہے جن کا ماضی میں مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے۔
شدت پسندی میں اضافے کا خدشہ:گوکہ فی الحال ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ روہنگیا پناہ گزین دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا بنگلہ دیشی یا غیرملکی شدت پسند مذہبی گروپوں سے ان کی کوئی وابستگی ہے، تاہم بعض تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں صورت حال بدل سکتی ہے۔جنوب ایشیا امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’بد قسمتی سے جنوبی ایشیا میں پناہ گزینوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ یہ الزام پاکستان میں افغان پناہ گزینوں پر عائد کیے گئے تھے اور بھارت میں مسلم پناہ گزینوں کو سیکورٹی کے لیے خطرے کے طورپر دیکھا جا تا ہے۔”کوگلمین کا خیال ہے کہ میانمار فوج کے ہاتھوں ظلم اور جبر کا شکار ہونے والے بعض روہنگیا پناہ گزینوں میں شدت پسندی پیدا ہوسکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر روہنگیا پناہ گزینوں کو اور بالخصوص بنگلہ دیش میں رہنے والوں کو دہشت گردی کا منصوبہ بنانے کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کا وجود بچائے رکھنے کی فکر کہیں زیادہ ہے۔روہنگیا پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے سرگرم ایک رضاکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے کہا،’’پناہ گزین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی ایک بھی غلط حرکت بنگلہ دیش میں ان کے محفوظ قیام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا،’’مجھے کاکس بازار میں پناہ گزینوں کی ایسی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ انہیں دہشت گردی میں کسی طرح کی دلچسپی ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ وہ بنگلہ دیش اور خطے کی سکیورٹی کے لیے کسی طرح کا خطرہ بن سکتے ہیں۔