ایران میں سزائے موت پر عمل درامد کا تناسب باعثِ تشویش ہے: اقوام متحدہ
نیویارک،اکتوبر۔ ایران میں سال 2020ء میں 250 سے زیادہ افراد کو سزائے موت دی گئی جن میں کم از کم 4 بھی شامل تھے۔ رواں سال اب تک سزائے موت کی 230 کارروائیوں پر عمل درامد ہو چکا ہے۔ ان میں 9 خواتین اور بچوں کو بھی خفیہ طور سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یہ بات ایران میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خود مختار تحقیق کار نے بتائی۔اقوام متحدہ کے مذکورہ نمائندے جاوید رحمن نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے باور کرایا کہ ایران نے تشویش ناک تناسب کے ساتھ سزائے موت پر عمل درامد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گذشتہ برس مشرق وسطی میں سزائے موت دینے والے ممالک میں ایران سرفہرست رہا۔ خطے میں دی جانے والی موت کی سزاؤں میں سے 493 یعنی کہ نصف سے زیادہ سزائیں ایران میں دی گئیں۔جاوید رحمن کے مطابق ایران کی جانب سے سزائے موت عائد کرنے کے واسطے استعمال کی جانے والی بنیادوں کے سبب اندیشے جنم لے رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران کے عدالتی اقدامات خامیوں سے بھرپور ہیں جن میں سادہ ترین ضمانتیں بھی نہیں پائی جاتیں۔نمائندے کے مطابق ایران میں عدالتیں بڑی حد تک جبری اعترافی بیانات پر انحصار کرتی ہیں جو تشدد کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔پاکستانی نڑاد جاوید رحمن لندن کی برونل یونیورسٹی میں انسانی حقوق اور اسلامی شریعت کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ ایران میں فوجداری قانون اور عدالتی نظام میں ترمیم کی اور بچوں کے خلاف سزائے موت پر عمل درامد فوری طور پر روکے جانے کی ضرورت ہے۔ایران میں انسانی حقوق کی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 4 دس برسوں کے دوران میں کم از کم 64 ایسے لڑکوں کو موت کی سزا دی جو بلوغت کی عمر کے قریب تھے۔