کاسمیٹک سرجری اور فیٹ فریزنگ: ’ایسا محسوس ہوا جیسے کسی ویکیوم کلینر نے مجھے چوس لیا ہو‘

لندن،اکتوبر۔فیٹ فریزنگ یعنی چربی جمانا ایک مشہور کاسمیٹک طریقہ کار ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں مختلف کلینکس اور سپا سینٹرز میں اس سے 80 لاکھ آپریشن کیے جا چکے ہیں لیکن حال ہی میں یہ طریقہ کار تمام تر غلط وجوہات کی بنا پر خبروں میں رہا۔کینیڈا کی ماڈل لنڈا ایونجیلسٹا کا شمار 1990 کی بہترین ماڈلز میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 50 ملین ڈالر کا مقدمہ دائر کیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس طریقہ کار نے انھیں ’وحشیانہ شکل میں‘ چھوڑ دیا۔وہ کہتی ہیں کہ اس سے وہ پیراڈاکسیکل ایڈیپوز ہائپرپلسیا (paradoxical adipose hyperplasia) کا شکار ہو گئیں، ایک ایسا مضر اثر جس سے ان کی چربی کے خلیوں میں اضافہ ہوا۔ لنڈا ایونجیلسٹا کا دعویٰ ہے کہ انھیں پہلے اس بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔لنڈا نے جس کمپنی پر یہ الزام لگایا ہے، بی بی سی نے اس سے رابطہ کیا تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔تاہم اس کمپنی کی ویب سائٹ پر اب لکھا ہے کہ ’مریضوں پر نتائج مختلف ہو سکتے ہیں‘ اور ’اس کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔‘ایونجیلسٹا کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ ان کے مؤکل کے اس سرجری سے گزرنے کے بعد لکھا گیا ہے۔ تو اس سرجری میں کیا خطرات ہیں اور اس کے علاج میں کیا شامل ہے؟ اس تحریر میں ہم تین لوگوں کا تجربہ بیان کر رہے ہیں۔
’ایسا محسوس ہوا جیسے کسی ویکیوم کلینر نے مجھے چوس لیا ہو‘:کاسمیٹک طریقہ کار برطانیہ سے تعلق رکھنے والی 39 برس کی ایلسا برن مرڈوک کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔وہ اپنی نوعمری سے ہی اپنی جسمانی شبیہہ کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہیں اور 21 سال کی عمر میں انھوں نے لیپوسکشن اور چھاتی کی سرجری کرائی لیکن اس وقت انھوں نے اپنے دوستوں اور خاندان سے یہ بات خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے کئی بار لپوسکشن کرایا لیکن مجھے کھانے پینے کے مسائل کا بھی سامنا تھا۔‘’مجھے کبھی بھی لپوسکشن نہیں کرانا چاہیے تھا میں اس وقت بہت دبلی تھی۔‘ ایلسا نے گزشتہ برس چربی جمانے والے علاج کا انتخاب کیا اور ان کی کمر، پیٹ، بازوؤں اور ٹانگوں پر تین مہینوں میں کل تین سیشن ہوئے۔اس بارے میں وسیع تحقیق کے باوجود انھوں نے سب سے سستا آپشن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ کہتی ہیں ’میرے پاس چوائس تھی کہ میں اس جگہ جاؤں جو ایک ہیرڈریسر کی دکان کے نیچے ایک کمرہ تھا جہاں ایک عورت آپریشن کرتی تھی یا کسی ڈیپارٹمنٹل سٹور کے اندر موجود خوبصورت کلینک جاؤں۔‘’اور آخر میں یہ کم قیمت ہی تھی جس نے مجھے متاثر کیا اور میں بہت سستی جگہ پر چلی گئی۔‘ایلسا نے اپنے علاج کے لیے تقریباً 650 پاؤنڈ (875 ڈالر) خرچ کیے۔ برطانیہ میں چربی جمانے کے علاج پر 400 پاؤنڈ (545 ڈالر) سے 800 پاؤنڈ(1090 ڈالر) تک کا خرچ آتا ہے تاہم اس کا انحصار سیشن کی تعداد اور علاج کے حصے پر منحصر ہوتا ہے۔ایلسا کا کہنا ہے کہ انھوں نے علاج سے پہلے کوئی مشاورت نہیں کی۔ ہر سیشن عام طور پر جسم کے ہر حصے کے لیے 45 منٹ تک جاری رہا جس میں مشینوں کے ذریعے ان کے جسم سے چربی نکالی گئی۔وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا محسوس ہوا جیسے کسی ویکیوم کلینر نے مجھے چوس لیا ہو۔‘ ’مجھے یاد ہے کہ میرا معدہ جمے ہوئے مکھن کے ایک بلاک کی طرح نظر آیا۔۔۔ اور میرا معدہ بہت زیادہ سخت اور ٹھنڈا تھا۔‘’میرے جسم پر سیاہ رنگ کے نشان تھے۔ میرے خیال میں سب سے بری چوٹ میری کمر پر تھی جہاں کچھ دن تک جامنی رنگ کے نشان تھے لیکن ان میں درد نہیں تھا۔‘ایلسا کا کہنا ہے کہ علاج توقع کے مطابق ہی ہوا تاہم انھیں اس کے بعد کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ ’مجھے واقعی کوئی نتائج نظر نہیں آئے اور مجھے لگا کہ میں نے اپنے 650 پاؤنڈ (875 ڈالر) ضائع کر دیے۔ایلسا کو شبہ ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انھوں نے سستے علاج کا انتخاب کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں سوچتی ہوں کہ اگر میں زیادہ مہنگے کلینک جاتی تو نتائج مختلف ہوتے۔‘سو اب ایلسا کہاں کھڑی ہیں؟ ’یہ احساسِ شرمندگی ہے کہ میں اس بات پر اپنی اہمیت کو جانچوں کہ زیر جامہ ہٹانے پر میری کمر پر کتنی چربی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بہت بنیادی ہے، میں اب بھی اپنی ظاہری صورت کو بہت اہمیت دیتی ہوں۔‘’میں سمجھدار ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ میرا جسم کوئی مسئلہ نہیں اور اگر آپ اپنی صحت پر توجہ دینا چاہتے ہیں تو صرف چربی کا علاج کرنا ہی اس کا کوئی طریقہ نہیں۔‘
فیٹ فریزنگ کیا ہے؟:یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں چربی کے خلیوں کو بہت کم درجہ حرارت پر ٹھنڈا کر کے تباہ کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں ایسے بہت سے کلینک جو یہ طریقہ کار کرتے ہیں، وہ عام طور پر ٹھوڑی کے نیچے، ٹانگوں، بازوؤں، پیٹ یا کمر کے اردگرد پائے جانے والے چربی کے خلیوں کو سکڑانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔یہ طریقہ کار ان لوگوں کے لیے موزوں نہیں جو موٹے ہیں اور اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں۔ عام طور پر اس کے مضر اثرات میں جسم پر نشان اور خارش وغیرہ شامل ہیں۔تاہم ایک انتہائی نایاب مضر اثر میں پیراڈاکسیکل ایڈیپوز ہائپرپلسیا ((paradoxical adipose hyperplasia)) شامل ہے، جس کے مطابق چربی کے خلیوں میں سکڑنے کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔پیراڈاکسیکل ایڈیپوز ہائپرپلسیا کی کوئی خاص وجہ تو نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ مردوں میں زیادہ عام ہے۔
’یہ طریقہ کار واقعی کام کرتا ہے‘:لندن کی فوٹوگرافر جوانے محمد نے چار سال قبل 15.9 کلوگرام وزن کم کرنے کے بعد فیٹ فریزنگ کا طریقہ کار اختیار کیا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ میرا پیٹ ذرا بڑا تھا اور بہت سے طریقوں کے باوجود بھی یہ چربی نہیں جا رہی تھی۔‘جوانے کہتی ہیں یہ طریقہ کار کروانے کا فیصلہ مثالی جسم کے حصول کے بارے میں نہیں بلکہ خود سے محبت کا اظہار تھا۔’یہ صرف ایک چیز ہے تاکہ جب میں صبح اٹھ کر آئینے میں دیکھوں تو میں خود کو شاباش دے سکوں۔‘کچھ تحقیق کرنے کے بعد جوانے نے لندن کے ایک کلینک میں فیٹ فریزنگ کے تین سیشن لیے جس پر ان کا 450 پاؤنڈ (613 ڈالر) خرچ آیا۔وہ کہتی ہیں ’ہر قدم پر وہ بہت محتاط تھے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ طریقہ کار میں آگے بڑھنے سے پہلے میرا ڈاکٹر سے انٹرویو لیا گیا۔‘’انھوں نے واضح انداز میں مجھے مضر اثرات کے بارے میں خبردار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر مشین کی وجہ سے کچھ غلط ہو گیا تو وہ لپوسکشن کے لیے پیسے دیں گے۔‘’میں ایک ماں ہوں اور میں محسوس کر سکتی تھی کہ تھوڑا سا نکلا ہوا پیٹ چلا گیا۔ اس نے میرے لیے اس حصے سے چربی کے خلیوں کو ہٹا دیا اور یہ بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن پھر لاک ڈاؤن ہو گیا۔‘’یہ علاج مؤثر ثابت ہوتے ہیں لیکن آپ کو صحیح چیزیں کرنا ہوں گی، جیسے ورزش، بہت زیادہ پانی پینا اور صحت مند طرز زندگی اختیار کرنا۔‘
’ہر ایک کو اپنے جسم کے ساتھ جو وہ چاہتا ہے، کرنا چاہیے‘:گھانا سے تعلق رکھنے والی کان کنی کی انجینئیر رینر جواتی نے اپنے ظاہری خدوخال کو بدلنے کے لیے دباؤ محسوس کیا۔وہ کاسمیٹک سرجری کروانے کا سوچ رہی تھیں لیکن پیراڈاکسیکل ایڈیپوز ہائپرپلسیا کے بارے میں جاننے کے بعد اب انھیں لگتا ہے کہ یہ ان کے لیے بہترین آپشن نہیں ہو سکتا۔ بڑے ہوتے ہوئے رینر نے اپنے وزن میں اتار چڑھاؤ دیکھا۔ انھیں سکول میں کبھی کم وزن اور کبھی موٹاپے کی وجہ سے چھیڑا جاتا۔رینر کے لیے ثقافت اور سوشل میڈیا وہ بنیادی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے جسم کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ایک سال کے پرہیز اور کئی ورزشوں کے بعد انھوں نے ’آسان طریقہ‘ ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ 29 برس کی رینر کہتی ہیں کہ افریقی پس منظر سے آنا جہاں آپ کے خاندان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کھلم کھلا آپ کا مذاق اڑاتے ہیں یا آپ کے موٹاپے ہر ہنستے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ گھانا میں موٹاپے کا شکار افراد کا مذاق اڑانے کے لیے ایک گیت بھی ہے۔’میں بہت باڈی پازیٹیو ہوں لیکن میں اس بات پر بھی یقین رکھتی ہوں کہ ہر ایک کو اپنے جسم کے ساتھ جو وہ چاہتا ہے، کرنا چاہیے۔‘وہ جسمانی تبدیلیوں کو دیکھنے کے لیے طویل انتظار کیے بغیر وزن کم کرنا چاہتی تھی۔ ’لیکن پھر لوگوں کی باتیں آپ پر اثر انداز ہوتی ہیں اور آپ آسان حل تلاش کرتے ہیں۔‘گھانا میں سرجری اب بھی غیر معمولی بات ہے لیکن رینر کا کہنا ہے کہ اب اس بارے میں تبدیلی آ رہی ہے۔’ماضی میں کوئی بھی سرجری کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن کسی ایسے شخص کو، جسے آپ جانتے ہوں وہ بیرون ملک سفر کرے گا اور واپسی پر بہت مختلف نظر آئے گا۔‘رینر کو لگتا ہے کہ چربی منجمد کرنے کے خطرات اور پیچیدگیوں کے بارے میں موجودہ آگاہی کے باوجود بھی زیادہ تر لوگ اس سے باز نہیں آئیں گے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟:پلاسٹک سرجن اور برٹش ایسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجنز کے نائب صدر مارک پیسفیکو نے ایسے طریقہ کار کے خلاف خبردار کیا ہے جو بہت اچھے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں جو طبی طور پر تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔وہ کہتے ہیں ’یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ کوئی بھی جو اس علاج کی پیشکش کرتا ہے وہ اپنے مریض کو سب کچھ سچ بتائے کیونکہ یہ ایک طبی علاج ہے۔‘مسٹر پیسفیکو کا کہنا ہے کہ چربی منجمد کروانے والے لوگوں کو اس بارے میں آگاہ رہنے کی ضرورت ہے کہ ’یہ درد سے پاک نہیں اور اس بارے میں ہمیشہ درست پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔‘برٹش ایسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجنز کا کہنا ہے کہ ایک حالیہ سروے کے مطابق سرجنز نے فیٹ فریزنگ سے پیچیدگیوں کا شکار ہونے والے 21 افراد کو دیکھا ہے۔ برٹش ایسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجنز مارکیٹنگ اور علاج کی تشہیر سے متعلق بہتر قواعد کا مطالبہ کر رہی ہے۔مارک پیسفیکو کہتے ہیں کہ ’جب ہم غیر جراحی علاج کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب خطرے سے پاک نہیں ہوتا اور میرے خیال میں یہ ایک غلط فہمی ہے۔‘

Related Articles