موساد: ’بات نہ کرو ، گولی مارو‘ کے اصول پر عمل پیرا اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ایران میں کیا کر رہی ہے؟

تہران،اکتوبر۔یہ دو فروری 2017 کا دن تھا۔ چند نامعلوم افراد نے تہران کے شور آباد صنعتی زون میں ایک گودام کے دروازے توڑے اور سات گھنٹے سے بھی کم وقت میں 27 تجوریوں کے تالے توڑ کر ایسے ہزاروں نقشے، مسودے اور سی ڈیز تک رسائی حاصل کر لی جن میں ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات موجود تھیں۔اس خفیہ کارروائی کے تین ماہ بعد، یہ چوری شدہ دستاویزات اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں منظر عام پر لائی گئیں۔ تل ابیب شور آباد سے دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے درجنوں دستاویزات اور سی ڈیز کی رونمائی کی جو اْن کے بقول موساد کے ایجنٹ تہران سے چوری کر کے اسرائیل لائے تھے۔اس وقت تو ایران کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس دعوے کو ’جھوٹا‘ اور دستاویزات کو ’جعلی‘ قرار دیا تھا، لیکن صدارتی انتخابات کے موقع پر اس وقت کے صدر حسن روحانی سمیت کئی اعلیٰ ایرانی عہدیداران نے ان دستاویزات کے چوری ہونے کی تصدیق کی تھی۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موساد کو کیسے پتہ چلا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خفیہ دستاویزات کہاں موجود ہیں؟ اور وہ یہ دستاویزات کیسے چوری کرنے میں کامیاب ہوئے؟ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے ایران کی حساس تنصیبات میں ماضی قریب میں ہونے والے دھماکوں، تخریب کاری کی کارروائیوں اور متعلقہ افراد کے قتل میں اس تنظیم (موساد) کا کیا کردار ہے؟ان سوالات کے جواب تلاش کرنے اور دنیا کی سب سے پراسرار خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک موساد کے بارے میں جاننے کے لیے میں نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کا سفر کیا جہاں اسرائیلی فوج، سکیورٹی اور انٹیلیجنس سروسز کے ہیڈ کوارٹرز واقع ہیں۔
’بات مت کرو، گولی مارو‘:موساد کی سرگرمیاں اتنی خفیہ ہیں کہ بہت سے لوگ یہ ہی نہیں جانتے کہ اس خفیہ ایجنسی کی ہیڈکوراٹر کہاں ہے۔ایجنسی کے انتہائی کامیاب آپریشنز کے بارے میں بھی اس ادارے کی خاموشی اور رازداری ہمیں اس تنظیم کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ایک مثال ایران کے ایٹمی پروگرام کے پس پردہ بڑی شخصیت محسن فخری زادہ کو قتل کرنے کی حالیہ کارروائی ہے۔ محسن فخری زادہ کو تہران کے قریب قتل کیا گیا تھا لیکن اسرائیل کے کسی سینیئر عہدیدار نے اس واقعے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کی تھی۔بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اسرائیلی وزیر دفاع بنی گانٹز نے اس قتل پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف یہ کہا تھا کہ: اسرائیل کے پاس دنیا کا مضبوط ترین انٹیلیجنس اور دفاعی نظام ہے اور وہ اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔‘یہی وجہ ہے کہ جب موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن، جو اپنی شعلہ بیانی کے باعث جانے جاتے تھے، نے ایک انٹرویو میں ایران کے جوہری پروگرام کے دستاویزات کی چوری کی تفصیلات بتائیں اور انکشاف کیا کہ موساد برسوں سے محسن فخری زادہ کی خفیہ نگرانی کر رہا تھا۔ ان کے اس بیان کے بعد اسرائیلی حکام اور سکیورٹی عہدیداران نے اْن پر کڑی تنقید کی تھی۔ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل اموس گلاد ان لوگوں میں شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ دشمن کی تضحیک کرنا اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے: ’اگر تم گولی مارنے جا رہے ہو تو گولی مارو، بات نہ کرو۔ کیونکہ بات کرنا موساد کے طرز عمل کے خلاف ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا درجہ بڑا ہے کہ یہ کسی اقدام کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور ہر کام خفیہ انداز میں کسی بھی تشہیر کے بغیر کرتے ہیں۔‘ایک اسرائیلی صحافی اور مصنف رونن برگ مین، جنھوں نے موساد کی کارروائیوں پر وسیع تحقیق کی ہے، کہتے ہیں کہ ایران میں کسی بھی مشکوک واقعے کا الزام موساد پر عائد کیا جاتا ہے چاہے وہ بجلی کی بندش ہو یا ٹرینوں کے نظام میں خلل۔ان کا ماننا ہے کہ زیادہ تر ایسے واقعات کا اسرائیل اور موساد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن وہ ایک انتہائی دلچسپ بات بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ موساد نے ایک افسانوی شکل اختیار کر لی ہے اور یہ موساد کی سب سے اہم کامیابی ہے۔ کیونکہ یہ دشمنوں اور حریفوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اہم ہے۔‘مشرق وسطیٰ میں سی آئی اے کے ایک سابق سینیئر ایجنٹ نارمن رول نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خفیہ آرکائیوز تک اسرائیل کی رسائی ’دورِ حاضر کی کامیاب جاسوسی کارروائیوں میں سے ایک ہے۔‘ان کے مطابق ان دستاویزات نے ثابت کیا کہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ کیا تھا اور اس نے اس صلاحیت کو تاحال برقرار رکھا ہوا ہے۔اسرائیل میں بی بی سی نے ایسی کئی چوری شدہ دستاویزات تک رسائی حاصل کی ہے۔ بی بی سی ان دستاویزات کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکتی لیکن ان دستاویزات میں ایرانی انتظامی طریقہ کار کی عکاسی ضرور ہوتی تھی اور یہ ’کلاسیفائڈ‘ دستاویزات تھیں۔ان دستاویزات میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ جوہری پروگرام کے لیے خفیہ مراکز قائم کیے جائیں جہاں قابلِ اعتماد اور منتخب افراد کام کریں۔
وہ سیف جو موساد نے خریدے تھے:سنہ 2017 کے آخر میں ایران میں موساد کے ایجنٹس نے اسرائیلی حکومت کو اطلاع دی تھی کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے آرکائیوز تہران کے مضافات میں ایک گودام میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔رونن برگ مین کا کہنا ہے کہ موساد نے اس علاقے کو اس کے نقشے اور محل و وقوع کے حساب سے اسرائیل میں دوبارہ تعمیر کیا تاکہ موساد کے ایجنٹ اپنی چھ ماہ کی تربیت کے دوران اس علاقے سے واقفیت حاصل کر سکیں۔موساد کے ایجنٹس نے طویل عرصے سے محافظوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی اور ان عمارتوں کے ’بلڈنگ پلان‘ کا مطالعہ بھی کیا جن میں سیف موجود تھے۔رونن برگ مین کے مطابق تہران میں جس کمپنی نے یہ ڈھائی میٹر چوڑے سیف خریدے تھے موساد نے ایک ’کور کمپنی‘ کے ذریعے اس سیف کے دو نمونے خرید کر بذریعہ یورپ اسرائیل منگوا لیے جہاں ان کا باریک بینی سے معائنہ کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ موساد کے ایجنٹس اس نتیجے پر پہنچے کہ 3500 ڈگری درجہ حرارت دینے والے کسی آلے کے ذریعے وہ سات منٹ میں تمام سیف کھول سکتے ہیں۔یوسی کوہن جو اس آپریشن کے وقت موساد کے سربراہ تھے نے اسرائیلی چینل 12 کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے دو اہم فیصلے کیے: ’پہلا یہ کہ ہمارے ایجنٹس کو ان دستاویزات کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھنی چاہیے اور دوسرا یہ میں نے انھیں ان دستاویزات کی منتقلی کے لیے تیار رہنے کو کہا۔‘انھوں نے اس آپریشن کی براہ راست نگرانی کی اور کہا کہ افسران کے پاس صرف سات گھنٹے تھے اور انھیں محافظوں کی شفٹ تبدیل کرنے سے پہلے وہاں سے جانا ضروری تھا۔انبار میں 32 سیف تھے لیکن موساد کے ایجنٹس کے پاس ان کے مندرجات کے بارے میں درست معلومات موجود تھیں اس لیے انھوں نے وہ مخصوص سیف کھولے جن میں زیادہ اہم دستاویزات تھے۔اس حوالے سے ذرائع بتاتے ہیں کہ موساد دستاویزات کو آذربائیجان کے راستے تل ابیب لے گیا۔ تاہم ایران، آذربائیجان اور اسرائیل میں سے کسی نے بھی اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔یوسی کوہن نے اپنے انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ دستاویزات کو ایران سے کیسے نکالا گیا، لیکن یہ دعویٰ ضرور کیا کہ اس آپریشن میں حصہ لینے والے تمام ایجنٹ ایران سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اسرائیل محسن فخری زادہ تک کیسے پہنچا؟:بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق چیف انسپکٹر رابرٹ کیلی اسرائیل کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کو اہم سمجھتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ ایران نے سنہ 2003 سے اپنے جوہری پروگرام کا عسکری حصہ معطل کر رکھا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’جیسے ہی یہ دستاویزات ایک متروک گودام میں محفوظ کی جاتی ہیں اس سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران نے ان منصوبوں کو فی الحال ترک کر دیا ہے۔ ان دستاویزات کی حیثیت تاریخی ہی ہے۔‘تاہم دستاویزات میں ایک نام تھا جسے بنیامن نیتن یاہو نے شو کے دوران سب کو یاد رکھنے کو کہا: وہ تھا محسن فخری زادہ کا نام۔ان دستاویزات میں موساد کے لیے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خفیہ حصے میں سائنسدان محسن فخری زادہ کا کلیدی کردار زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔رونن برگ مین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کا خیال تھا کہ محسن فخری زادہ کو قتل نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ وہ ایک بااثر مینیجر اور بیوروکریٹ نہیں تھے۔ ’لیکن چوری شدہ دستاویزات نے کچھ اور دکھایا۔ مسٹر فخری زادہ ایک اچھے سائنسدان اور ایک منظم جوہری پروگرام چلا رہے تھے۔‘نارمن رول محسن فخری زادہ کو وہ واحد شخص سمجھتے ہیں جو تنظیمی انتظام اور بیوروکریسی کے انچارج تھے، اور جو ایران کے ایٹمی پروگرام کو عسکری شکل دیتے تھے۔ان کے مطابق فخری زادہ پر ’سپریم لیڈر اور ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر دونوں ہی مکمل اعتماد کرتے تھے۔‘جوہری دستاویزات کی نمائش کے تقریباً ڈھائی سال بعد، محسن فخری زادہ کو تہران کے مشرق میں 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مشہور شاہراہ پر ایک آپریشن میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے محرکات تاحال واضح نہیں ہو سکے اور اس سلسلے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
کمانڈر جو جاسوس بن گئے:بہت سے سابق ایرانی عہدیداروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا ایران کی سکیورٹی سروسز اور پاسداران انقلاب پر سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نڑاد نے کئی ماہ قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملک کی وزارت انٹیلیجنس ان کی گھر کی نگرانی اور ان کی جاسوسی کرتی ہے۔ایک سابق ایرانی انٹیلیجنس وزیر علی یونسی نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں موساد کا اثر و رسوخ اس طرح ہے کہ ’ایران کے تمام عہدیداروں کو اپنی جانوں کی فکر ہونی چاہیے۔‘ایک محقق اور قومی مذہبی کارکن رضا علیجانی کا کہنا ہے کہ ان افراد کی گرفتاری اور قید کی خبروں کا اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ یہ ’خفیہ ایجنسیوں اور پورے نظام کو بدنام کر سکتا ہے۔‘علی جانی جنھوں نے ایران کی انٹیلیجنس اور سکیورٹی ایجنسیوں پر اسرائیلی اثر و رسوخ کے حوالے سے تحقیق کی ہے نے ایرانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ ان کی ذمہ داریوں کی تفصیل میں صرف اندرونی دشمنوں، حکومتی ناقدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہے۔ یہ اور انتظامی ڈھانچے کی کمزوریوں کے باعث اسرائیلی خفیہ ایجنسی حکومت کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے ایک سابق انٹیلیجنس ماہر، جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، نے بی بی سی کو بتایا کہ پاسداران انقلاب میں غیر ملکی عناصر کا اثر و رسوخ برسوں پہلے شروع ہو چکا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ قدس فورس کے اہلکاروں کے مالی حالات خاصے مخدوش ہیں اور اس فورس کے کچھ خاص افسران کو سہولیات اور دولت تک رسائی حاصل ہے۔وہ پاسدارانِ انقلاب کی توجہ عراق، لبنان، شام اور افغانستان پر مرکوز کیے جانے کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ایران کے اندر سیل قائم کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھتی ہیں۔انھوں نے کہا میں جانتی ہوں کہ غیر ملکی سروسز کے پاس کچھ سفیروں یا پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں کے خواتین کے ساتھ تعلقات کے ثبوت تھے۔ یہ خفیہ ادارے ان دستاویزات کو استعمال کرتے ہوئے ان عہدیداران کو اپنا کام کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‘رضا علیجانی کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کے بہت سے کمانڈر روس سمیت خطے کے مختلف ممالک میں ٹریننگ کے لیے جاتے ہیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ’ان کی مالی اور جنسی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں مختلف ہوٹلوں میں ٹھہراتی ہیں۔‘
اسرائیل اور ایران کی کشمکش:دریں اثنا ایران کے سکیورٹی اداروں کے درمیان تناؤ کی کیفیت ہے، جن میں سب سے اہم پاسدارانِ انقلاب اور وزارت انٹیلیجنس کے درمیان مقابلہ ہے۔ علیجانی کہتے ہیں کہ ’اپنے اندرونی جھگڑوں میں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے بیڈ رومز میں بھی کیمرے لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کی ویڈیوز بناتے ہیں۔‘حالیہ برسوں میں ایران کی انٹیلیجنس سروسز بھی لوگوں کو اسرائیل کی طرف راغب کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں اسرائیل کے وزیر توانائی اور انفراسٹرکچر کو تہران جانے اور ایران کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں تین برس قبل 11 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔رونن برگ مین کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں جنگ ’بڑے ٹینکوں اور فوجی مہمات کی نہیں رہی بلکہ اب ایران اور اسرائیل خطے میں تسلط جمانے اور اثر و رسوخ بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔‘سی آئی اے کے سابق ایجنٹ نارمن رول کا بھی خیال ہے کہ ایران اسرائیل جنگ اب خفیہ نہیں رہی۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری بم تک رسائی حاصل کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گے۔ایران کے لیے اسرائیل کا مقابلہ ایک نظریاتی جدوجہد اور مشرق وسطیٰ میں بالادستی کی جنگ ہے جو کہ اسرائیل کو آہستہ آہستہ تبدیل کر رہی ہے۔

 

Related Articles