سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں نرمی، اب کیوں؟
تہران،اکتوبر۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات پر جمی برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ تہران اور ریاض نئے تعلقات کی شروعات کر دیں۔ یہ اہم ہے کہ آیا یہ دونوں اسلامی ممالک قریبی اتحادی بن سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں علاقائی حریف سمجھے جانے والے سعودی عرب اور ایران کے درمیان گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلوں میں اس سال کئی زیادہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ملکوں کے مندوبین چار مرتبہ بغداد میں اور پھر ایک مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں ملے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تہران اور ریاض کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ سن 2016 میں سعودی عرب کی جانب سے شیعہ مبلغ آیت اللہ نمر النمر کو سزائے موت دی گئی تھی جس کے نتیجے میں ایران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل ایرانی مظاہرین نے حملہ کردیا تھا۔ اس کے بعد ریاض حکومت نے تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے۔ اس کے علاوہ شام، یمن اور لبنان میں جاری علاقائی تنازعات میں دونوں ممالک مسلسل ایک دوسرے کی مخالفت میں متحرک رہے ہیں۔ اس پس منظر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے یہ کہنا کہ ایران کے ساتھ بات چیت باہمی اعتماد پیدا کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنے میں ٹھوس نتائج کی طرف لے جائے گی،‘‘ ایک نئی پیش رفت ہے۔ جرمن شہر بون میں کارپور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایرانی امور کے ماہر عدنان طباطبائی کہتے ہیں,فی الحال یہ ایک مثبت اشارہ ہیکہ بات چیت جاری ہے اور اسے روکا نہیں گیا۔ تاہم اگر ہم تہران اور ریاض کے نقطہ نظر کا موازنہ کرتے ہیں تو تہران مثبت نتائج کے لیے زیادہ پراعتماد دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں اور ناقص اقتصادی صورتحال کے باوجود تہران حکومت کو لگتا ہے کہ وہ ایک مضبوط پوزیشن میں ہے۔ طباطبائی کے بقول، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں، لیکن ایران کا سب سے بڑا مفاد خطے میں تجارتی تعلقات کو بڑھانا ہے۔‘‘ دوسری طرف سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ملک اور مصر کے بعد عرب دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسری بڑی ریاست ہے۔ ایران کی تباہ کن معیشت کے لیے سعودی عرب ایک خوش آئند کاروباری شراکت دار ثابت ہوسکتا ہے۔