مشرق کی عورت یا مغرب کی؟

رابطہ…مریم فیصل
جب بھی بات عورتوں کے ساتھ زیادتی اور ان پر کئے جانے والے ظلم کی ہوتی ہے، ہمیشہ یہی خیال آت ہے کہ یہ ترقی پذیر ممالک کا مزاج ہے کہ وہاں عورتوں کو کم تر اور مظلوم سمجھ کر ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے ،مشرق میں عورت ہمیشہ ظلم سہنے والی مخلوق ہی کا کردار نبھاتی آئی ہے کیونکہ وہاں کمانے والا مرد مضبوط اور حکمراں سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں عورت اور مرد دونوں کے لئے الگ الگ انداز تربیت ہے، مشرقی عورت ڈری سہمی حیا کا پیکر بنا دی جاتی ہے جب کہ مرد اسی حیا کے پیکر کامالی و مختار بن کر اس کو اپنی جاگیر سمجھ کر اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق زندگی گزر واتے ہیں اور جب اسی گھٹے ہوئے معاشرے میں کوئی عورت اپنی مرضی سے جینے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تب وہ بے حیا بد کردار عورت سمجھی جاتی ہے لیکن ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا واقعی مشرق میں صرف ظلم ہی ہو رہا ہے وہاں عورت صرف پریشان ہے وہاں اسے کوئی خوشی نصیب نہیں تو پھر اسی سوچ میں گھرے سوالوں کا جواب ہم اس واقعے میں ڈھونڈنے لگتے ہیں جس میں مشرق نہیں بلکہ مغربی ملک کی آزاد جسے تمام حقوق حاصل ہوں جو مالی طور پر بھی مستحکم ہو ،ایسی عورت کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا، یہ واقعہ اور صرف یہی واقعہ نہیں ایسے اَن گنت واقعات ہیں جو مغرب میں پیش آتے ہیں جن میں ان معاشروں کی آزاد عورت کو اس کا شوہر یا سابق شوہر ، بوائے فرینڈ اور کسی واقعے میں کوئی اجنبی بھی قتل کردیتا ہے اوراس واقعے کے بعد اس کے گھر والے صرف افسوس کر تے رہ جاتے ہیں۔ جب یہاں کے مرد کی تربیت میں، عورت تم سے کم تر کمزور ہے، والا نکتہ شامل ہی نہیں ہوتا تو پھر ایسے واقعات یہاں رونما ہونے ہی نہیں چاہیے۔ جب یہاں کی عورت کسی طرح بھی مردوں پر انحصار کرنے والی نہیں ہے تو پھر کیوں وہ سر عام قتل کر دی جاتی ہیں ؟ یہ وہ سوالات ہے جو ان آزاد معاشروں میں اب شدت سے اٹھنے لگے ہیں کیونکہ یہاں تو عورت آزاد ہے مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے تفریق کا سامنا نہیں کرتی لیکن پھر بھی اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اگر بات صرف تربیت کی ہوتی تب تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اب تک اسی تربیت کا نام لے کر ہی تو ہم خود کو تسلی دیتے آئے ہیں کہ وہاں تو مردوں کی تربیت ہی عورت اور مرد کے طور پر الگ الگ انداز میں کی جاتی ہے لیکن یہاں تو آنکھ کھلتے ہی لڑکا یہی دیکھتا ہے کہ جس طرح اسے پہننے اوڑھنے کھانے پینے کی ، کہیں آنے جانے کی مکمل آزادی ہے بالکل اسی طرح اس کی بہن ماں اور خاندان کی دوسری عورتوں کو بھی ہے،ایک لڑکا پچپن سے اپنے باپ کے ساتھ ماں کو بھی گھر کے ساتھ معاشی امور کی انجام دہی میں مشغول دیکھتا ہے اور یہ سب اس کے ذہن میں فٹ ہوجاتا ہے کہ یہاں گھر کا کام اگر عورت کر تی ہے تو مرد کے لئے بھی اس میں کوئی آر نہیں اور جس طرح مرد لوگ گھر سے باہر نکل کر کمانے جاتے ہیں عورت کے لئے بھی یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تو مطلب صاف ہے یہ مسائل تربیت کی وجہ سے نہیں بلکہ مغربی معاشروں میں پلنے والی اس فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں جو یہاں پیدا ہونے والے زیادہ تر بچے بچیاں دیکھتے ہیں جو جنم لیتی ہے ٹوٹے رشتوں ،ماں باپ کی علیحدگی بوائے فرینڈ گرل فیرینڈ کی آزادی جیسے رواج کی وجہ سے۔ کیونکہ بچوں کے دماغ میں جب یہی فلم چلتی رہے گی، کہ کبھی ماں چھوڑ کر جا رہی ہے کبھی باپ سوتیلا ہے اور یہاںں تو فوسٹر کیئر کے مسایل بھی ہے کہ جن میں بچے اپنے ماں باپ اور سگے بہن بھائیوں کے ساتھ نہیں بلکہ ایسے افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جن کے ساتھ ان کا خونی رشتہ نہیں بلکہ صرف قانونی تعلق ہوتا ہے اور ایسے تعلقات میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی جیسے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ ایسے میں بچوں کی دماغی حالت کا اندازہ کوئی بھی کر سکتا ہے اور ان ہی حالات سے گزر کر جب یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تب ان کی زندگی کا سائیکل بھی اپنے والدین سے مختلف نہیں ہوتا، اسی لئے مغرب میں سارہ جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں اور یہ ہوتے رہے گے جب تک یہاں خاندانی نظام مضبوظ نہیں ہوجاتا اور جہاں تک بات مشر ق کی ہے تو وہاں سوچنے کا انداز تبدیل کرنا ضروری ہے۔

Related Articles