خواتین کی حفاظت کیلئےچ دوبارہ متعارف کروانے کے سلسلے میں پٹیشن پر ہزاروں افراد کے دستخط
لندن،اکتوبر۔ ہزاروں افراد نے خواتین کی حفاظت کیلئے نائٹ ٹیوب دوبارہ شروع کرنے کیلئے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔ پٹیشن پر دستخط کرنے والے ہزاروں افراد نے آج لندن ٹرانسپورٹ باڈی ٹرانسپورٹ فار لندن ( ٹی ایف ایل ) سیمطالبہ کیا ہے کہ وہموسم سرما میں عورتوں اور لڑکیوں کو محفوظ رکھنے کی غرض سے نائٹ ٹیوب دوبارہ کھولیں۔ پٹیشن لانے کرنے والی ایلا واٹسن نے سروس کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو گزشتہ سال شہر میں کورونا وائرس کوویڈ 19 کے پھیلائو کے رسپانس کی وجہ سے بند کر دی گئی تھی۔ 26 سالہ ایلا واٹسن نے کہا کہ لندن انڈرگرائونڈ ٹیوب میں 24 گھنٹے سروس میں وقفے کا مطلب یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو رات کو ٹیکسیز کے ذریعے اپنے گھروں کو واپس جانے پرمجبور ہونا پڑے گا۔ سبرینا نسا اور سارہ ایورارڈ کے قتل کے واقعات کے بعد چینخ و پکار نے اس کو مزید تقویت بخشی ہے کہ خواتین اور لڑکیاں رات کو پیدل کھر جاتے ہوئے خود کو کیسے غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ ایلا واٹسن کی یہ پٹیشن چینج او آر جی پر لانچ کی گئی جس پر دستخط کرنے والوں کی تعداد اب تک 75000 تک پہنچ گئی ہے۔ صرف پارلیمنٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر ہوسٹ کی جانے والی پٹیشنزکو ایم پیز اس وقت زیر بحت لاتے ہیں جب ان پر دستخط کرنے والوں کی تعداد 100000 تک پہنچ جاتی ہے۔ انہوں نے پی اے نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ پٹیشن اس لییلانچ کی تھی کہ میں اس جیسی کسی پٹیشن پر دستخط کرنا چاہتی تھی لیکن ایسی کسی پٹیشن کا کوئی وجود نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بخوبی سمجھتی اور محسوس کرتی ہوں کہ عورت ہونا کیسا ہے خاص طور پر لندن میں رات کو گھرجانے کیلئے سفر کرنا کتنا غیر محفوظ ہوتا ہے۔ نائٹ ٹیوب کے ریموو کرنے کے عورتوں پر کتنے غیرمتناسب اثرات پڑتے ہیں جن کو عوام میں جنسی طور پر ایسالٹ کیے جانے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس فیصلے میں اس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ پیج پر لکھتے ہوئے مس واٹسن نے کہا کہ لندن اور یو کے کی گلیوں میں خاص طور پر شام اور رات کے اوقات میں خواتین اور لڑکیاں غیر محفوظ ہیں۔ لندن کی گلیوں میں سبرینا نسا اور سارہ ایورارڈ کے قتل کیحالیہ واقعات پر درست چینخ و پکار اس کو واضح کرتی ہے کہ ان اوقات میں خواتین اور لڑکیاں اکیلے چلنے یا کھڑے ہونے پر کتنا خوف محسوس کرتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ فارلندن ( ٹی ایف ایل ) کی جانب سے 2021/2022 کے موسم سرما میں نائٹ ٹیوب کو بند رکھنے کے فیصلے کے خواتین اور کم آمدن گروپس پر غیر متناسب اثرات پڑیں گے اور خواتین کو غوام میں غیر محفوظ ہونے کے نتیجے میں مصروف فیسٹیول سیزن کے دوران خواتین کو گھروں کوواپس جانے کیلئے موہنگی ٹیکسز پر سفر کرنے پر مجبورہونا پڑے گا۔ لندن انڈر گرائونڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر اینڈی لائیڈ نے کہا کہ جلد از جلد ایک یا دو لائنز نائٹ ٹیوب لائنز دوبارہ متعارف کروانے کیلئے فزیبیلٹی تلاش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ لندن پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے عورتوں اور لڑکیوں کو محفوظ طور پر سفر کی یقین دہانی کرونا ہماری سروس کی واضح ترجیح ہے۔ مس واٹسن لندن سکول آف اکنامکس سے انوائرمنٹ اور ڈیولپمنٹ گریجویٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹی ایف ایل کی جانب سے رات کو ایک یا دو لانز کو دوبارہ متعارف کروانے کی راہیں تلاش کرنا ایک مثبت آغاز ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پی اے نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایشو جب پورے لندن کو متاثر کر رہا ہے تو پھر ایک یا دو لائنز متعارف کروانے کا وہ کیسے جواز فراہم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ اب بھی اب بھی ان خواتین اور لڑکیوں کی سیفٹی کو خطرات سے دوچار کر رہے ہیں جن کے ایریاز میں نائٹ ٹیوب لائنز بدستور بند رہیں گی۔ انہوںنے کہا کہ میں یہ دیکھنا چاہوں گی کہ لائنز کے حوالے سے خالی وعدوں کے بجائے کچھ ٹھوس عزم سامنے آئے مسٹر لارڈ نے کہا کہ ہم اپنی تمام سروسز میںہر ممکن طور پر مکمل کے قریب تر سروس کو جاری رکھیخ ہوئے ہیں اور سینٹرل لندن میں ٹیوب بدستوہر رات کو 01.00 پر آخری ٹرینز روانہ کرتی ہے اور 05.30 پر شروع کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد از جلد نائٹ ٹرین کو دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس کوویڈ 19 پینڈامک نے ٹرین ڈرائیورز کے حوالے سے ہماری صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔ اور پوریہفتے ہمیں دن کے اوقات میںاپنی قابل اعتماد سروسز کو چلانے کیلئے دستیاب ڈرائیورز کو تعینات کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس پر نظرثانی جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کس طرح ہم محفوظ انداز اپنی فل فرائیڈے اینڈ سیچرڈے نائٹ ٹیوب کو دوبارہ متعارف کروانے کے قابل ہو سکتے ہیں جو ہمارے لیے قابل عمل بھی ہو۔ میئر لندن صادق خان نے نائٹ ٹیوب اگست 2016 میں لانچ کی تھی اور یہ جمعہ اور ہفتے کو ٹی ایف ایل کی منتخب لائنز پر 24 گھنٹے سروس کے طور پر دیکھی جاتی تھی۔