خطّے میں کشیدگی کے لیے امریکا ذمہ دار ہے، کم جونگ اْن

پیونگ یانگ،اکتوبر۔شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اْن نے امریکا کو مخاصمانہ پالیسیوں کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اپنی قومی خود مختاری کی حفاظت کے لیے فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔کم جونگ اْن نے جزیرہ نما کوریا میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ امریکا کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں کہ واشنگٹن کا پیانگ یانگ کے تئیں ’’مخاصمانہ رویے کے سوا کوئی دوسری اپروچ ہے۔شمالی کوریا کی جانب سے حال ہی میں ایک ہائپر سونِک میزائل کے تجربے کی خبروں کے درمیان پیانگ یانگ میں منعقدہ ایک دفاعی نمائش کے دوران کم جونگ اْن نے کہا، ’’ہم کسی کے ساتھ جنگ کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم خود کو جنگ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی قومی خود مختاری کے لیے جنگ کے تدارک میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ گوکہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریاکے تئیں اس کی کوئی مخاصمت نہیں ہے تاہم کم جونگ اْن کا کہنا تھا، ’’میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا شخص یا کوئی ملک ہے جو اس بات پر یقین کرتا ہو۔ اس موقع پراخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں کم جونگ اْن کو مختلف قسم کے ہتھیاروں کے سامنے کھڑا دیکھا جاسکتا ہے۔ ان ہتھیاروں میں ہواسونگ 16بین براعظمی بیلیسٹک میزائل شامل ہیں۔ شمالی کوریا کا سب سے زیادہ دوری تک مار کرنے والا بین براعظمی میزائل ہواسونگ 16 کو گزشتہ برس فوجی پریڈ میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا تاہم ابھی تک اس کا تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی آنے کے ساتھ ہی شمالی اور جنوبی، دونوں کوریا، کم دوری کے جدیدترین بیلیسٹک میزائلوں اور دیگر ہتھیاروں کے مسلسل تجربات کر رہے ہیں۔شمالی کوریا تاہم میزائل پروگرام کے لحاظ سے آگے ہے اور بعض لوگوں کا خیال یہ کہ اس نے اپنے ایک اہم جوہری ری ایکٹر میں بڑے پیمانے پر توسیع کا کام شروع کردیا ہے۔ اس سے جوہری بم کے لیے ایندھن تیار کیا جاسکتا ہے۔دوسری طرف جنوبی کوریا نے بھی اپنی پہلے آبدوز بیلیسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ وہ جنگی طیارہ بردار جہازوں سمیت مختلف نئے ہتھیاروں کی تیاری کا منصوبہ بنا رہا ہے۔اس نے اپنے اتحادی امریکا سے ایف35 جنگی طیارے بھی خریدے ہیں۔امریکا نے شمالی کوریا کی کسی جارحیت کو روکنے کے لیے جنوبی کوریا میں اپنے تقریباً 28 ہزار 500 فوجی تعینات کردیے ہیں۔ واشنگٹن اور سیول نے اگست میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی تھیں۔ کم جونگ اْن نے اسے جنگ کی تیاری قرار دیا تھا۔امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان سفارتی تعلقات سن2018 میں اس وقت بظاہر صحیح سمت کی جانب بڑھتے ہوئے دکھائی دینے لگے تھے جب سنگاپور چوٹی کانفرنس کے دوران کم جونگ اْن نے اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ یہ شمالی کوریا کے کسی رہنما کی امریکی صدر سے پہلی ملاقا ت تھی۔تاہم پابندیوں میں نرمی اور جوہری ہتھیاروں پر روک لگانے کے معاملے پر اختلافات کے نتیجے میں ہنوئی میں ہونے والی بات چیت ناکام ہوگئی۔امریکا کا گوکہ کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی بھی وقت سفارتی بات چیت کرنے کا خواہش مند ہے تاہم صورت حا ل اب بھی تعطل کا شکار ہے۔ پیانگ یانگ کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک بات چیت شروع نہیں کرے گا جب تک واشنگٹن اس پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کرتا اور جنوبی کوریامیں اپنی فوجی سرگرمیوں کو روک نہیں دیتا۔

Related Articles