عراقی انتخابات، دنیا کے لیے اہم کیوں؟

بغداد،اکتوبر.عراقی الیکشن میں شریک سیاسی جماعتوں کو مختلف نوعیت کے کئی شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں کمزور اقتصادی صورت حال سے لے کے سیاسی و معاشرتی عدم استحکام اور سکیورٹی خطرات تک شامل ہیں۔عراق کے پارلیمانی الیکشن 10 اکتوبر کو ہو رہے ہیں۔ نئی انتخابی اصلاحات کے بعد یہ ملک میں پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ سابقہ الیکشن متناسب نمائندگی پر تھے۔ اس مرتبہ 83 حلقے ہیں اور ہر حلقے سے کئی نمائندوں کا انتخاب کیا جائے گا۔ خواتین کی بھرپور نمائندگی کے لیے بنیادی 83 حلقوں میں ایک تہائی نشستیں ان کے لیے مخصوص ہیں۔ اسی طرح اقلیتوں کے لیے بھی نئی پارلیمنٹ میں نو سیٹیں وقف کی گئی ہیں۔عراق کے الیکشن پورے مشرق وسطیٰ کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین نے اندازے لگائے ہیں کہ منتخب پارلیمان ملک کی کمزور ہوتی معیشت کی بہتری کے لیے غیر معمولی اقدامات کرے گی اور اس کے نتیجے میں بیروزگاری میں کمی واقع ہو گی۔ایک توانا عراق بطور ملک اپنے ہمسایہ ممالک کے لیے بھی اہم ہے۔ حالیہ عرصے میں اس کے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مکالمت شروع کرانے کے کردار کو سراہا گیا ہے۔ہارورڈ کینیڈی اسکول کے بیلفر سینٹر سے منسلک عراقی نڑاد امریکی ریسرچر مارسین الشامری کا کہنا ہے کہ 10 اکتوبر کے الیکشن پر دنیا کی نظریں جمی ہیں کیونکہ یہ خطے کی علاقائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔عراق کے ریاستی اداروں میں زوال کی کیفیت اس قدر زیادہ ہے کہ انتظامی ڈھانچے کے منہدم ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ اندرونی تنازعات اور کرپشن اہم معاملات ہیں، جن سے ملکی معاشرت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کورونا وبا نے عوام کی مشکلات کو دوچند کر دیا ہے۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہو چکی ہے۔جہادی تنظیم داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں بے گھری کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد ابھی تک واپس لوٹ نہیں سکے ہیں، ان کی بحالی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔انتخابات کا انعقاد قبل از وقت اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ سن 2019 میں شدید عوامی مظاہروں میں نئی پارلیمان کے مطالبات سرفہرست تھے۔ ان مظاہروں میں عراق کی نوجوان نسل شریک تھی۔ انہی مظاہروں میں انتخابی ضوابط میں تبدیلی اور انسداد کرپشن کے مطالبے بلند کیے گئے تھے۔انتخابی قواعد میں تبدیلی پیدا کی جا چکی ہیں اور نئی پارلیمان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ انسداد بدعنوانی کے سخت اقدام متعارف کرائے گی۔ مظاہرین کے مطالبات کی روشنی میں انتخابی حلقے چھوٹے کر دیے گئے ہیں اور زیادہ آزاد امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔اقوام متحدہ کی رواں برس منظور کی جانے والی ایک قرارداد کی روشنی میں 10 اکتوبر کے انتخابات کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی مبصرین کی ایک بڑی ٹیم عراق پہنچ کر انتخابی عمل کی شفافیت پر نگاہ رکھے گی۔ مبصرین کی تعداد 600 ہے اور ان میں سے 150 کا تعلق اقوام متحدہ سے ہو گا۔یہ پہلے الیکشن ہوں گے جن میں بائیومیٹرک کارڈز ووٹرز کو جاری کیے گئے ہیں اور ان کو الیکشن سے 72 گھنٹے قبل معطل کر دیا گیا ہے تا کہ ان سے دو بار ووٹ نہ ڈالا جا سکے۔ ان کو الیکشن کے دن بحال کر دیا جائے گا۔ان انتظامات کے باوجود ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ با اثر امیدوار ووٹ خریدنے میں مصروف ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ بھی شروع ہو گیا ہے۔ایسے خدشات کے تناظر میں عراقی عوام کا خیال ہے کہ الیکشن کے بعد کسی بڑی تبدیلی کا امکان کم ہے صرف ایک معمولی تعداد کو یقین ہے کہ معاشی و معاشرتی حالات میں تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔

Related Articles