’نوکری کے بدلے ہمیں جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا جاتا‘
عالمی ادارہ صحت/کنساسا،ستمبر۔افریقہ میں 2018ء سے 2020ء تک ایبولا وبا کے خلاف آپریشن کے دوران تعینات ڈبلیو ایچ او کے امدادی کارکنوں نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کانگو کے مردوں اور خواتین کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔عالمی ادارہ صحت کی طرف سے مقرر کردہ ایک انکوائری مشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں ایبولا آپریشن کے دوران انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کام کرنے والے امدادی کارکنوں نے خواتین اور کچھ مردوں کا جنسی استحصال کیا۔عالمی ادارہ صحت نے ایبولا آپریشن سے متعلق ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے افریقی ملک کانگو میں اس آپریشن کے دوران ڈبلیو ایچ او کے کارکنوں کی طرف سے وہاں کی خواتین اور مردوں کو جنسی استحصال کا شکار بنانے کے واقعات سے متعلق تفتیش کی۔ اس کمیشن نے ڈبلیو ایچ او کے کئی کارکنوں اور کئی دیگر اداروں کے اراکین کے علاوہ 63 متاثرہ خواتین اور 12 متاثرہ مردوں کے بیانات سنْے۔ رپورٹ میں نو خواتین کے ریپ اور 29 خواتین کو ان کی مرضی اور خواہش کے بغیر حاملہ کرنے کے واقعات کی دستاویزات بھی شامل ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایسے کیسز جنہیں رپورٹ تک نہیں کیا گیا ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ تفتیشی کارروائی کے بعد 83 مبینہ مجرموں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان میں سے 21 ملزمان نے یقینی طور پر عالمی ادارہ صحت کے لیے کام کیا ہے۔ ان الزامات کی زد میں دیگر ملزموں کے علاوہ ڈبیلو ایچ او کے ڈاکٹرز اور عملے کے سینیئر ارکان بھی شامل ہیں جو مقامی اور غیر ملکی دونوں طرح کی ٹیموں کے اراکین تھے۔ ان میں سے بیشتر نے ان الزامات کی تردید کی ہے یا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جو جنسی تعلق قائم کیا اْس میں دو طرفہ رضامندی شامل تھی۔‘‘ایبولا وائرس کے بعد دنیا کو دو مزید مہلک بیماریوں کا سامنا
انتہائی افسوسناک‘ رپورٹ:ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم نے اس رپورٹ کو انتہائی افسوناک‘ قرار دیا ہے۔ ایبولا کی وبا کے دوران ہونے والے جرائم کے بارے میں تفتیشی کارروائی کے دوران کم از کم 50 خواتین نے کہا کہ 2018 ء سے 2020 ء تک ایبولا کے پھیلاؤ کے دوران مردوں نے انہیں سیکس کے عوض جاب کی پیشکش کی اور جنسی تعلق پر مجبور کیا اور جن خواتین نے جنسی عمل سے انکار کیا انہیں نوٹس دے دیا گیا۔ جینیوا میں قائم نیوز ایجنسی نیو ہیومینیٹیرین کے مطابق وہ خواتین جو باورچی خانوں یا صفائی کا کام کرتی تھیں یا ایبولا کی وبا سے متاثرہ آبادی کے لیے تیار کردہ معلوماتی پروگراموں کا حصہ تھیں، انہیں سب سے زیادہ جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ ان خواتین کو کام کے قلیل مدتی معاہدے دیے جاتے تھے جس کے تحت انہیں ماہانہ 50 تا 100 ڈالر اجرت دی جاتی تھی۔ یہ رقم کانگو میں اس طرح کی نوکری کی عمومی اجرت کے دوگنا سے زیادہ بنتی ہے۔
’سیکس یا برطرفی‘:ایبولا کمیشن نے ایک متاثرہ خاتون کے حوالے سے کہا، ہر چیز کے عوض سیکس یا جنسی تعلق قائم کرنے کی شرط تھی۔‘‘ مذکورہ خاتون کے بقول، ہر کسی کو جاب حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے سیکس پر رضامند ہونا پڑتا تھا۔‘‘ ایک اور گواہ نے ایک مشتبہ شخص کے حوالے سے بتایا، اس نے دھمکی دی کہ اگر میں نے اْس کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہ کیا تو میں اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھوں گی۔‘‘ایک اور خاتون کا کہنا تھا کہ اْس نے نوکری کی درخواست دی جس کے بعد اْسے ہوٹل کی ایک نوکری کی پیشکش کی گئی جس کی شرط یہ تھی کہ اس پوزیشن کو حاصل کرنے کے لیے اْسے سیکس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو متعلقہ شخص نے اس کے ساتھ زبردستی کی اور اس کا ریپ کیا۔ ایک اور خاتون جو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کیساتھ کام کرتی تھی اْسے ایک آپشن دیا گیا، یا تو وہ ایک مرد کے ساتھ سیکس کے لیے تیار رہے یا پھر اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ چھوڑ دے۔ اس خاتون کے بقول اس نے اپنی آدھی تنخواہ چھوڑ دینے کے آپشن کا انتخاب کیا۔ایبولا وبا کے متاثرین کے علاج کے ایک مرکز میں کام کرنے والی ایک خاتون نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، مجھے انصاف چاہیے کیونکہ ان لوگوں نے واقعتاً ہمارے ساتھ بہت بدسلوکی کی ہے، ہمارا استحصال کیا، ہمیں ناقابل برداشت مقام تک پہنچایا۔ جاب حاصل کرنے کے لیے ہمیں زبردستی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔‘‘ایبولا کمیشن نے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی محض انفرادی غفلت ‘ نہیں بلکہ اس ادارے کے انتظامی ڈھانچے اور ساخت کی سخت ناکامی کی تصدیق کی ہے۔ تاہم ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم، ڈبلیو ایچ او کے افریقہ کے لیے مقامی ڈائریکٹر ماٹشیڈیسو موئتی اور ایمرجنسی کوآرڈینیٹر مائیک ریان کو ذاتی طور پر اس سب کا قصوروار قرار نہیں دیا جا سکتا۔