بزرگوں کی فکر ضروری
عارف عزیز (بھوپال)
اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ جن والدین نے نہ جانے کتنی تکلیفیں اٹھا کر اور کتنے خواب سجا کر بچوں کو جنم دیا، کئی بار انہیں ان سے ہی ذلت اور درد ملتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کا درد والدین کے لئے دنیا کے دوسرے تمام دردوں سے زیادہ گہرا درد ہے، لیکن کبھی عمر اور وقت کی مار تو کبھی جذبات کے بندھن سے پیدا ہوئی لاچاریوں کی وجہ سے عمر دراز افراد کے سامنے اپنے درد کو اپنے ہی اندر دبا لینے کے سوا دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ یہ مشکل صورت حال اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب انہیں اپنے حق میں موجود قوانین کی معلومات نہیں ہوتیں یا ان کے تئیں وہ بیدار نہیں ہوتے۔ اب مرکزی حکومت نے اپنے بزرگ والدین کا خیال نہ رکھنے، ان کو چھوڑ دینے یا ان سے بدسلوکی کرنے والوں کے لئے موجودہ قوانین کو مزید سخت کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے تحت اگر کوئی شخص اپنے بزرگ والدین کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے یا ان کے ساتھ بے رحمی کرتا ہے تو اُسے اب چھ ماہ تک کی جیل کی سزا ہوسکتی ہے۔ قانون میں ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ اس میں اب تک جہاں والدین کی صرف اپنی اولاد اور پوتے پوتیاں آتی ہیں وہیں اب متبنیٰ اولاد یا سوتیلے بچے، داماد اور بہو وغیرہ کو بھی اس دائرے میں شامل کیا جائے گا۔ کسی بھی ملک یا ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بزرگوں کو نہ صرف عمر کی وجہ سے پیدا ہوئی تکالیف کے مد نظر بلکہ ایک شہری کے طور پر بھی ضروری مدد مہیا کرائے، اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی کرے، اس میں ایک ضروری گنجائش یہ کرنے کی ضرورت ہے کہ خاندان اور سماج میں بے رخی کا درد جھیلنے والے تمام بزرگوں کے بچوں کی ذمہ داری مقرر کی جائے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری سے فرار کرتے ہیں تو اُسے جرم قرار دیا جائے۔ بزرگوں کے دکھ کو کم کرنے کے لئے سیاسی حلقوں میں وقتاً فوقتاً مطالبہ اٹھتا رہا ہے اور پہلے بھی کچھ قانون بنائے گئے ہیں۔ مثلاً خاندان میں بزرگوں کی توہین یہاں تک کہ مار پیٹ اور گھر سے نکال دیے جانے جیسے واقعات میں اضافہ کے مد نظر ہی ۲۰۰۷ء میں اس وقت کی یوپی اے حکومت نے ’’والدین اور سینئر شہری کی دیکھ بھال اور بہبود قانون‘‘ بنایا تھا، لیکن سماج کے بزرگوں کے درمیان بیداری کی کمی کی وجہ سے اس کے اثر کا دائرہ محدود رہا۔
حال ہی میں بہار حکومت نے ایک اہم فیصلہ لیا ہے کہ والدین کی خدمت نہ کرنے اور ان پر ظلم کرنے والی اولاد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور انہیں جیل بھیجا جائے گا۔ اب اگر بزرگ والدین کا خیال رکھنے کے مقصد سے مرکزی حکومت نے بھی اس مسئلہ پر سابقہ قانونی دفعات اور مزید سخت کرنے کا فیصلہ لیا ہے تو یقینی طور پر یہ لائق خیر مقدم ہے، لیکن اس کے مثبت نتائج اس بات پر منحصر رہیں گے کہ اس قانون کے بارے میں سماج کتنا بیدار ہوپاتا ہے اور بزرگوں کو اپنے حقوق کے بارے میں کتنی جانکاری ہوپاتی ہے۔ حالانکہ وہ اپنے آپ میں ایک افسوسناک بات ہے کہ بزرگ والدین کی حفاظت کرنے کے لئے کسی قانون کا سہارا لینا پڑے، لیکن جب تک سماجی اور فطری ذمہ داری کے تحت اُن کی اولاد ایسا نہیں کرتی ہے تو انہیں قانوناً اِس کے لئے مجبور کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔