وہ عظیم کھلاڑی جن سے قسمت آخری دنوں میں روٹھ گئی

کراچی ،ستمبر۔ٹینس کے عالمی نمبر ایک کھلاڑی نوواک جوکووچ حالیہ دنوں میں اپنے کریئر کا 21واں گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ اپنے نام کرتے کرتے رہ گئے۔ انہیں یو ایس اوپن کے فائنل میں روسی کھلاڑی ڈینئل مدویدیو نے اسٹریٹ سیٹس میں شکست دے کر جہاں ریکارڈ کامیابی سے دور کیا وہیں انہیں کلینڈر ایئر گرینڈ سلیم جیتنے سے بھی محروم کر دیا۔جوکووچ کو رواں برس یہ دوسرا بڑا دھچکا لگا ہے۔ اس سے پہلے وہ اولمپک گیمز میں بھی مینز سنگلز اور مکسڈ ڈبلز کے سیمی فائنل میں شکست کھا چکے تھے۔مینز ایونٹ میں وہ کانسی کے تمغے کے میچ میں کامیاب نہ ہوسکے جب کہ مکسڈ ڈبلز ایونٹ میں تیسری پوزیشن کے میچ سے قبل انہوں نے دست بردار ہونے میں عافیت جانی۔جوکووچ سے پہلے بھی کئی ایسے نامور کھلاڑی گزرے ہیں جنہوں نے ابتدا میں تو خوب ریکارڈ توڑے، لیکن آخری دنوں میں جب قسمت نے ان کا ساتھ چھوڑا، تو سب کچھ ہی چھوٹ گیا۔ایسے ہی نو عظیم کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کا کریئر اس عروج پر ختم کیوں نہ ہوا جس کے وہ حق دار تھے۔
1۔ سر ڈان بریڈ ڈمین (آسٹریلوی کرکٹر):کرکٹ کا شاید ہی کوئی ریکارڈ ایسا نہ ہو جو گزشتہ صدی میں سر ڈان بریڈ مین کے پاس نہ ہو۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں وہ کارنامے سر انجام دیے جن کی خواہش ہر کھلاڑی رکھتا ہے۔کرکٹ کا ایک سنگ میل جو آسٹریلیا کے عظیم بلے باز عبور نہ کر سکے وہ ایک اننگز میں 100 کی اوسط کا کارنامہ تھا۔اپنے آخری ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں جس وقت وہ کریز پر بیٹنگ کرنے گئے تھے تو ان کی اوسط 101.39 تھی۔ لیکن دوسری ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہو جانے کی وجہ سے ان کی اوسط 99.94 ہو گئی۔عظیم بلے باز کے پاس دوسری اننگز میں اس اوسط کو بہتر کرنے کا موقع تھا۔ البتہ انگلش ٹیم کو اننگز کی شکست ہوئی اور سر ڈان بریڈ مین کو 99.94 کی کریئر اوسط پر اکتفا کرنا پڑا۔اگر وہ پہلی اننگز میں بولڈ ہونے کے بجائے صرف چار رنز اسکور کر لیتے تو ان کی ٹیسٹ کریئر میں اوسط 100 فی اننگز ہو جاتی لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی 99.94 کی اوسط کے قریب بھی کوئی کھلاڑی نہیں پہنچ سکا ہے البتہ انہیں اور ان کے مداحوں کو ہمیشہ ان چار رنز کا افسوس رہا۔
2۔ سمیع اللہ (پاکستانی ہاکی اسٹار):جب بھی پاکستان ہاکی کی بات کی جائے گی تو سمیع اللہ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ ہاکی کی دنیا میں وہ اپنی تیز رفتار ڈربلنگ، ناقابلِ یقین کنٹرول کی وجہ سے ‘فلائنگ ہارس’ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔لیکن ایک روگ ہے جو ورلڈ کپ، چیمپئنر ٹرافی اور ایشین گیمز جیسے ایونٹ جیتنے والے کھلاڑی کو ہے اور وہ ہے اولمپک گیمز میں سونے کا تمغہ نہ جیتنے کا غم۔سمیع اللہ نے ہاکی کی دنیا میں انٹری 1972 کے اولمپک گیمز کے بعد دی تھی جب متعدد پاکستانی کھلاڑیوں کو پوڈیئم پر چاندی کا تمغہ ملنے پر احتجاج کرنے کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا۔ 1976 کے اولمپک گیمز میں وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے ایونٹ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔چار سال بعد جب وہ اپنے کریئر کے عروج پر تھے تو پاکستان نے امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے روس کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کیا اور دو سال بعد سمیع اللہ یہ حسرت لیے ریٹائر ہو گئے کہ ان کے پاس ہر ایونٹ کا گولڈ میڈل ہے، سوائے اولمپکس کے۔یاد رہے کہ سمیع اللہ کے چچا مطیع اللہ خان 1960 میں پہلی مرتبہ اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والی پاکستان ہاکی ٹیم کے رکن تھے جب کہ ان کے چھوٹے بھائی کلیم اللہ نے 1984 میں اب تک آخری بار سونے کا تمغہ جیتنے والی پاکستان کی ٹیم کی جانب سے فیصلہ کن گول اسکور کیا تھا۔سمیع اللہ اس تاریخی لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان ٹیم کے ساتھ موجود تھے لیکن ایک کھلاڑی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مبصر کے طور پر۔
3۔ ڈیاگو میراڈونا (ارجنٹائن فٹ بالر):فٹ بال کی دنیا میں جو مقام ارجنٹائن کے سابق کپتان ڈیاگو میراڈونا کو حاصل ہے وہ کسی کسی کے نصیب میں آتا ہے۔سال 1986 کے فٹ بال ورلڈ کپ میں ٹائٹل وننگ کارکردگی ہو یا چار سال بعد اپنی ٹیم کو ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچانا، میراڈونا کا جادو ہر بار ان کی ٹیم کے کام آیا۔لیکن 1994 کے ورلڈ کپ میں جب میگا ایونٹ امریکہ میں ہو رہا تھا تو میراڈونا کو قسمت نے دھوکہ دیا۔لیجنڈری فٹ بالر کو ڈرگ ٹیسٹ پاس نہ کرنے پر ایونٹ کے دوران ہی باہر کر دیا گیا تھا جس کے بعد ارجنٹائن کی ٹیم کا سفر بھی کوارٹر فائنل سے پہلے ختم ہو گیا۔اس پابندی کے بعد میراڈونا نے ارجنٹائن کی کبھی کسی انٹرنیشنل میچ میں نمائندگی نہیں کی۔
4۔ مونیکا سیلیس (ٹینس کھلاڑی):نوے کی دہائی میں اگر کسی ٹینس کھلاڑی نے جرمنی کی اسٹیفی گراف کا تن تنہا مقابلہ کیا تو وہ یوگوسلاویہ کی مونیکا سیلیس تھیں۔وہ عمر میں جرمن حریف سے چار سال چھوٹی تھیں البتہ انہوں نے بہت جلد ہی اپنا لوہا منوا لیا تھا اور یہی ان کے زوال کا سبب بھی بنا۔سن 1990 اور 1993 کے درمیان تین آسٹریلین اوپن، تین فرنچ اوپن اور دو یو ایس اوپن جیتنے والی اس کھلاڑی کو اپنی 20ویں سالگرہ سے چند ماہ قبل ایک شخص نے ایسا زخمی کیا کہ وہ دو سال تک ٹینس کورٹ سے باہر ہو گئیں۔یہ واقعہ ہمبرگ اوپن کے دوران اس وقت پیش آیا جب مونیکا سیلیس بریک پر تھیں۔ ایک مقامی شخص نے سیلیس کے کندھے پر چاقو سے حملہ کیا۔حملہ آور شخص اسٹیفی گراف کا مداح تھا اور مونیکا سیلیس کی جیت سے خائف تھا۔دو سال کے طویل عرصے تک ٹینس سے دور رہنے کے بعد مونیکا سیلیس نے 1995 میں ٹینس کورٹ میں قدم رکھا اور 1996 میں اپنا چوتھا آسٹریلین اوپن بھی جیتا البتہ انجری سے واپس آنے کے بعد وہ ایک الگ کھلاڑی نظر آئیں۔سال 2003 میں انہوں نے اپنا آخری میچ کھیلا جس کے بعد انہوں نے کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
جاوید میانداد (پاکستانی کرکٹر):اگر کسی نے جاوید میانداد کو ان کے کریئر کے عروج کے زمانے میں بتایا ہوتا کہ دنیا بھر میں اپنی پھرتی کی وجہ سے جانے والا یہ کرکٹر، اپنی آخری اننگز میں رن آؤٹ ہو گا اور اسی کے ساتھ اس کا کریئر بھی ختم ہو جائے گا تو انہیں اس کا کبھی یقین نہ آتا۔جب 1992 کے ورلڈ کپ کے ہیرو جاوید میانداد کو چار سال بعد ہونے والے ایونٹ میں بطور ایک عام کھلاڑی کے منتخب کیا گیا تو کپتانوں کا کپتان اپنی فارم سے زیادہ اپنے تجربے کی بنیاد پر کھیل رہا تھا۔ایونٹ کے کوارٹر فائنل میں انہوں نے مخالف ٹیم بھارت کی ناک میں دم تو کیا البتہ شارجہ میں یادگار چھکا مارنے والے اس بلے باز سے سنگل ڈبل سے زیادہ کچھ نہیں ہو رہا تھا۔انہوں نے اپنی اننگز میں صرف دو چوکے لگائے تھے۔ بالآخر جب 45 ویں اوور کی پہلی گیند پر 64 گیندوں پر 38 رنز بناکر جاوید میانداد رن آؤٹ ہوئے تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ اس کے بعد یہ عظیم کھلاڑی کبھی کرکٹ کے میدان میں نظر نہیں آئیں گے۔
محمد اظہر الدین (بھارتی کرکٹر):لوگ ڈیبیو پر ٹیسٹ سنچری کو کارنامہ مانتے ہیں لیکن بھارت کے محمد اظہر الدین نے پہلے تین میچز میں سینچریاں داغ کر سب کو حیران کر دیا تھا۔سن 1984 میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے اس کرکٹر کو نہ صرف ایک بہترین بلے باز مانا جاتا تھا بلکہ ان کا شمار دنیا کے بہترین فیلڈروں میں بھی ہوتا تھا۔انہوں نے بھارت کی ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں فارمیٹ میں قیادت بھی کی اور 16 سال تک ٹیم کی نمائندگی بھی کی۔اپنے 99ویں ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف سینچری اسکور کر کے اظہرالدین نے ایک مرتبہ پھر ریکارڈ بکس میں انٹری کے لیے تیاری پکڑی البتہ 100ویں ٹیسٹ سے قبل ان کی اپنی پکڑ ہو گئی اور میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں کرکٹ سے باہر کر دیا گیا۔ان پر لگی اس پابندی کو 2012 میں عدالت نے غیر قانونی قرار دیا تھا البتہ 100واں ٹیسٹ کھیلنے سے وہ محروم رہے۔ریکارڈ بکس میں اظہر الدین کے پاس اپنے کریئر کے پہلے اور آخری ٹیسٹ میچ میں سینچریاں بنانے کا اعزاز ضرور ہے۔راشد لطیف (پاکستانی کرکٹر)جب 1992 میں راشد لطیف نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا تو سب کو اس بات کی خوشی ہوئی کہ پاکستان کو ایک ایسا وکٹ کیپر ملا جو کیچ گراتا نہیں بلکہ پکڑتا ہے۔ اگلے 10 برس تک راشد لطیف اور معین خان کے درمیان نمبر ون کی جنگ جاری رہی جس میں قرعہ کبھی معین خان کے نام نکلتا تو کبھی راشد لطیف کے۔سن 2003 کے ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد بورڈ نے راشد لطیف کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا۔ تاہم بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ میچ میں الوک کپالی کا ایک متنازع کیچ پکڑنا راشد لطیف کو مہنگا پڑ گیا۔انہوں نے اْس وقت تو اس بارے میں یہی کہا کہ انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ کیچ درست ہے یا نہیں۔ البتہ میچ ریفری مائیک پروکٹر نے ان پر پانچ میچز کی پابندی لگا دی جس کے بعد وہ کبھی پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ نہ بن سکے۔
شعیب اختر (پاکستانی کرکٹر):راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور شعیب اختر سے نہ تو تیز بالر کوئی آیا ہے اور نہ ہی کوئی موجودہ بالر ان سے تیز معلوم ہوتا ہے۔وہ اپنے کریئر کے دوران متنازع تو رہے لیکن جب جب انہوں نے ردھم میں بالنگ کی تو مخالف ٹیم کے بڑے سے بڑے بلے باز کو مشکل میں ڈالا۔ورلڈ کپ 2011 میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے خلاف میچ شعیب اختر کے کریئر کا آخری میچ ثابت ہوا۔سنسنی خیز میچ کے چودہویں اوور میں شعیب اختر نے دو مرتبہ راس ٹیلر کو، جو اس وقت تین رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے، گیند وکٹ کے پیچھے ایج کرنے پر مجبور کیا لیکن دونوں مرتبہ وکٹ کیپر کامران اکمل گیند پکڑ نہ سکے۔راس ٹیلر نے اس میچ میں نہ صرف 131 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلی بلکہ نو اوورز میں 70 رنز دینے والے شعیب اختر کا یہ آخری میچ ثابت ہوا۔
مہندرا سنگھ دھونی (بھارتی کرکٹر):موجودہ صدی کے بہترین بھارتی کپتان کا نام جب بھی لیا جائے گا تو مہندرا سنگھ دھونی اس میں سرِ فہرست ہوں گے۔ جس طرح اس وکٹ کیپر بلے باز نے بھارتی کرکٹ کو ایک برینڈ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اگر وہ اپنے آخری ورلڈ کپ میں بھی ایسا کرتے تو سب کو یاد رہتے۔لیکن 2019 کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ان کا آخری میچ ثابت ہوا۔ انہوں نے 72 گیندوں پر ایک چھکے اور ایک چوکے کی مدد سے نصف سینچری اسکور کی۔اگر یہ کوئی نارمل میچ ہوتا تو لوگ اس بات کو بھول جاتے لیکن یہ ورلڈ کپ 2019 کا سیمی فائنل تھا جس میں دھونی کی سست بیٹنگ کی وجہ سے میچ میزبان انگلینڈ کے حق میں جاتا رہا۔میچ کے 49ویں اوور میں دھونی رن آؤٹ ہوئے اور اسی کے ساتھ ان کا شاندار کریئر مایوس کن کارکردگی پر اختتام کو پہنچا۔

Related Articles