انسانی صحت وزندگی کے مسائل پر توجہ ہو
عارف عزیز(بھوپال)
آپ کیوں بیمار ہوتے ہیں؟ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت آپ نے کبھی محسوس نہیں کی ہوگی خدا اپنے بندوں کو کبھی بیمار نہیں ڈالتا۔ لیکن قدرت یا فطرت کا قانون مذہب اور سماج بلکہ حکومت کے قانون سے بھی زیادہ سخت اور اٹل ہے اسلئے کہ فطرت اور قدرت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کبھی نظر انداز اور معاف نہیں کیا جاتا۔
بڑا یا چھوٹا امیر یا غریب کوئی بھی شخص قانون یا فطرت کی کوئی چھوٹی یا بڑی بات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو قدرت اس غلطی کو اپنی گرمت میں لے لیتی ہے اور اس کی قرار واقعی سزا بھی دیتی ہے۔
لہذا بہت تنگ وچست لباس پہننا ضرورت سے زیادہ گرم اور بھاری کپڑے زیبِ تن کرنا تازہ ہوا کم لینا یا ٹھنڈی ہوا ضرورت سے زیادہ کھانا، تازہ اور لطیف فضا کے بجائے، غلیظ اور متعفن ہوا میں سانس لینا، زبان کے چٹخارے اور مزے کے لئے طرح طرح کے مصالح، مرچ، گھی، مرغ ومچھلی کا استعمال کرنا، نیز نشہ آور اشیاء، گانجہ، افیون، چرس، شراب وغیرہ یا چائے قہوہ اور کافی کی زیادتہ تمباکو نوشی اور مختلف برانڈ کے تمباکو استعمال کرنا، چاٹ، پکوڑی، پوری، کچوری، مٹھائی، پراٹھا، کباب، قورمہ سے معدہ کو پر کرلینا کہ سانس لینا بھی دشوار ہوجائے متعفن وزہریلی گیسوں میں اور مٹی کے تیل پتھر کے کوئلے کے دھوئیں میں سانس لینا، یہ اور اس طرح کی دوسری بے اعتدالیاں و لاپرواہیاں قانون صحت اور قانون فطرت کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے جس کے خطرناک نتائج اور خمیازہ جسم وجان کو ضرور بھگتنا پڑتا ہے اور جب فطرت گنہگار کے لئے سزا مقرر کرتی ہے تو بعض مرتبہ اگلے پچھلے پاپوں کی سزا ایک ساتھ ہی بھگتنی پرجاتی ہے۔
روزانہ موسم وحالات کے مطابق غسل نہ کرنا، دانتوں کی صفائی نہ کرنا، حسب ضرورت چھ سات گھنٹے نہ سونا، کھیل، تماشوں، ٹی وی دیکھنے یا کسی اور مشغلہ میں مسلسل جاگتے رہنا، یہ تمام باتیں قانون فطرت کی خلاف ورزی ہے اور بیمار ہونے میں ان میں سے کسی عوامل کا دخل ہوتا ہے۔
یابیمار بچوں کے ماں باپ کا جو خود بھی بدپرہیزی کرتے ہیں اور بچوں کو بھی بے اعتدالی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ہمارے کثرے آبادی والے ملک میں جہاں بیماریوں اور بیماروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس کا بنیادی سبب ماحول اور آب وہوا کی خرابی، مکان اور رہائشی علاقوں کی گندگی، ثقیل، خراب اور ناقص غذائوں کا استعمال اور صحت وتندرستی کی طرف سے لاپرواہی برتنا ہے۔
عموماً گھروں میں کھانے پینے کی چیزیںکھلی ہوئی رکھی رہتی ہیں اور اس طرف سے عموماً لاپرواہی برتی جاتی ہے ان کھلی ہوئی چیزوں پر کون سے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی چاٹ پکوڑے کھانے کے شوقین، رس دہی، دودھ خریدنے والے ہوٹلوں پر کھانا کھانے والے، کبھی بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ وہ جو چیز جس جگہ سے خرید رہے ہیں کیا وہاں گندگی، غلاظت اور بیماریوں کے جراثیم ہوسکتے ہیں دوسری طرف کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ ان بیماریوں کا اصل سبب ہے۔
جوں جوں سرکاری ہسپتالوں ڈسپنسریوں، شفاخانوں اور ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اسی رفتار سے امراض اور مریضوں کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے اور عام انسانوں کی صحت وتندرستی اور طاقت کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اگر ہر شخص صحت وتندرستی کے عام قائدوں اور اصولوں کی پابندی کرے تو نہ صرف معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی بیماریاں بھی نہ ہوں اور اگر کوئی شخص عام قاعدوں کی پابندی کے باوجود بیمار ہوجائے تو نظا م جسمانی خود اس بیماری کو دور کرنے کی تدبیر کرلیتا ہے۔
یہ بات بالکل درست اور حقائق کے عین مطابق ہے کہ صحت وتندرستی اسپتالوں اور شفاخانوں ، ڈسپنسریوں، حکیموں اور ویدوں کے یہاں تقسیم نہیں کی جاتی۔ صحت وتندرستی دریا کے کناروں غسل خانوں، حماموں، قدرتی غذائوں، ورزش جسمانی میں میسر آتی ہے کوئی خوبصورت سے خوبصورت جدید آسائشوں سے پراسپتال اس کے آپریشن روم، دو ا تقسیم کرنے کے مقامات، جنگلوں، پہاڑوں اور پرلطیف کیفیتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جس طرح بدرنگ ، بدبودار تالاب کا پانی عرق گلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔٭