ماحولیاتی نظام میں خلل سے انسانی جانوں کو خطرہ
خواجہ یوسف جمیل
پونچھ، جموں
انسان کو قدرت نے عقل سے نوازا ہے۔ یہ اپنا اچھا برا خود سوچ سکتا ہے۔اسی لئے انسانی دوڑ اسی بات میں لگی رہتی ہے کہ بہتر سے بہتر زندگی تمام تر سہولیات کے بیچ گزاری جائے۔اس ترقی کی دوڑ میں اور اپنے مفاد کی خاطر انسان نے آبی ذخائر کے ساتھ ساتھ جنگلات کی جانب بھی رخ کیا ۔جس سے جانوروں کی قیام گاہوں پر گہرا اثر پڑنے لگا۔ انسان نے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی خاطر قدرتی نظام میں خلل ڈالا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ جنگلی جانور اب آبادیوں کی جانب رخ کرنے لگے اور لوگوں کی فصلوں کو نقصان پہنچانے لگے۔ نیز یہ جانور اب اپنا مسکن چھوڑ کر دوسرمقامات کی جانب منتقل ہورہے ہیں جو عوام الناس کے لئے شدید خطرے کا باعث ہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک و قوم کی ترقی کی خاطر حکومت بروقت کوشش کر رہی ہے ۔میدانی و پہاڑی علاقوں میں سڑکیں نکال کر جہاں ایک طرف عوام کی سہولت کے لئے کوشش کی جارہی ہے وہیں جنگل کے علاقوں میں سرنگوں کا استعمال کرکے پہاڑوں کو توڑ کر راستہ بنایا جاتا ہے۔ جس سے جنگل میں مقیم جانوروں کی رہائشگاہوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور فی الفور شدید خوفزدہ ہوکر جنگل چھوڑ دیتے ہیں ۔ جہاں ملک کے دیگر حصوں میں یہ واقعات رونما ہوتے ہیں وہیں ریاست جموں کشمیر میں بھی قدرتی ماحولیاتی نظام میں انتہائی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے جو کافر تشویشناک ہے۔ اس تعلق سے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے ایک مقامی بزرگ عبدالغنی کا کہنا ہے کہ آج سے بیس سال قبل ہمارے گاؤں میں جنگلی جانوروں کا آنا نہیں ہوا کرتا تھا اور ہماری فصلیں اور جانیں محفوظ ہوا کرتی تھی۔ اگرچہ سڑک اور دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان ہوا کرتا تھا تاہم اس کے باوجود بھی ہم سکون کی زندگی گزارا کرتے تھے۔ اب آئے روز ہماری زمینوں میں ریچھ و دیگر جنگلی جانور بے خوف و خطر گھومتے ہیں اور گزشتہ سالوں میں کئی لوگ ان جنگلی جانورو ں کا شکار بن چکے ہیں ۔یہ بات قابل غور ہے کہ موسم گرما آتے ہی یہ جانور آبادی کا رخ کرتے ہیں کیونکہ اس موسم میں متعدد میواجات اور فصلیں لوگ اگاتے ہیں ۔دوسری طرف لوگ مکانات کے استعمال میں جو لکڑیاں لاتے ہیں وہ بھی جنگلوں سے ہی آتی ہے ۔ سڑکیں بنانے کے دوران لاکھوں ہرے درخت کاٹ دئے جاتے جس سے ماحولیاتی تبدلی وجود میں آتے ہیں اور یہ ایک المیہ ہے کہ ایک طرف جہاں حکومت نے جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگارکھی ہے وہیں دوسری طرف سرکاری اہلکار سڑکوں کی تعمیر کے دوران جنگلوں کی بے رحمی سے کٹائی کرتے ہیں۔ ان پر قدغن لگانے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ یہ انہیں کاموں کو سر انجام دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ضلع پونچھ و دیگر دیہی علاقوں کی عوام کو گھرں سے باہر نکلنے میں خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں بائلہ کے دو افراد پر گزشتہ ہفتے ریچھ کے حملے میں شدید زحمی ہوگئے جنہیں بالکل سڑ ک کے قریب ہی دبوچ لیاتھا ۔ اس حوالے سے غلام نبی ولد کمال لون نے بتایا کہ میں گھر سے باہر نکلا کہ نماز کے لئے وضوع بنا لوں۔ گھر سے باہر نکلتے ہی سامنے سے ریچھ نے آکر مجھے دبوچ لیا اور مجھے شدید زخمی کردیا ‘‘ واضح رہے کہ غلام نبی آج سورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر علاج ہیں اور ایک اوپریشن بھی ہوا ۔اب اگرچہ غلام نبی کی صحت قدرے بہتر ہے تاہم انکا کہنا ہے کہ میں غریب طبقہ سے تعلق رکھتا ہوں اور محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ میری حکومت سے اپیل کی ہے کہ میری امداد کی جائے۔ وہیں اسی گا ؤں کی ایک اور خاتون سکینہ بی بیوہ فتح محمد تانترے سکنہ بائلہ تحصیل منڈی پر بھی دو بھالوں نے اچانک حملہ کردیا جس کے بعد انہیں علاج و معالجے کے لئے پونچھ اور پونچھ سے سورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر علاج ہیں۔ مزکوریہ سکینہ بی انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ غربت سے لاچار سکینہ بی جو بمشکل اپنا چولھا جلاتی تھیں اب لاکھوں روپے کے قرض تلے دب گھیں ۔انکے پسر محمد فاروق نے بتایا کہ میں غربت کا شکار ہوں اور میرے پاس اتنا خرچہ نہیں کہ اپنی والدہ کا علاج کروا سکوں ، انہوں نے مرکزی حکومت و ریاستی سرکار سے اپیل کی کہ انکی امداد کی جائے تاکہ وہ اپنی والدہ کا علاج کروا سکیں ۔اس کے علاوہ اور بھی ایسے کئی افراد ہیں جو گزشتہ سالوں میں ریچھ کے حملوں میں زخمی ہوئے اور کئی زخموں کی تاب نہ لاکر اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرگئے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس معاملے کا ذمہ دار کون ہے ؟ اگرچہ آئین ہند وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت جنگلی جانوروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اگر ان جنگلی جانوروں کو کوئی مارے یا پھر فروخت کرے تو اس شخص کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے، اس سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوتی ہیکہ انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ۔ اس حوالے سے جب محکمہ وائلڈ لائف کے آفسران سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ’’ ہمارے پاس صرف پنجرہ ہے جس میں ہم ان جنگلی جانوروں کوقید کر کے محفوظ مقامات تک پہنچاتے ہیں ۔ اسکے علاوہ ہم ان جانوروں کو کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں ان جانوروں کو مارنے کا حکم نہیں ہے ‘‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ ان جانوروں سے لوگوں کو محفوظ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ لوگ انفرادی طور پر سفر نہ کریں بلکہ محموعی طور پر ٹولیاں بنا کر سفر کریں ایسی صورت میں ریچھ یا دیگر جانوروں کے حملوں کے خطرات کم ہوتے ہیں۔ وہیں انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو یہ جانکاری بھی فراہم کرتے ہیں کہ وہ آواز کرنے والی چند اشیاء اپنے پاس رکھیں اسی کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو پٹاخے فراہم کرتے ہیں جن کی آواز سے یہ جانور فرار ہوجاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بلاک میڈیکل آفسر کا کہنا ہے کہ جب موسم گرما اپنے شباب پر ہوتا ہے لوگ ڈھوکوں کی جانب اپنا رخ کرتے ہیں گھاس و مکی کی فصلوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو جانوروں کے حملوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے ۔ہر سال تقریباً چار سے پانچ آدمی جنگلی کانوروں کا شکار ہوتے ہیں۔ جن کے علاج و معالجے کے لئے ہم ہر وقت مستعد رہتے ہیں ۔اگرچہ کوئی شخص شدید زخمی ہو اسے ضلع ہسپتال پونچھ یا پھر جموں منتقل کیا جاتا ہے‘‘ ضلع پونچھ کے بالائی علاقاجات میں زیادہ تر ریچھ و دیگر جانوروں کے حملوں کی خبریں موصول ہوتی ہیں ۔ درحقیقت جوں جوں انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سڑکیں و دیگر ترقیاتی کام جو آئے روز عمل میں لائے جارہے ہیں جو غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سہولت سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے کیونکہ اگر اندازہ لگایا جائے تو صرف وہی لوگ ان جنگلی جانوروں کا نشانہ بنتے ہیں جو غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اب لوگوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں محفوظ مقامات پر متبادل جگہیں فراہم کی جاہیں وہیں انہوں نے ضلع انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ ان جنگلی جانوروں سے انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے لئے کلیدی اقدامات اٹھائیں جائیں تاکہ عوامی جانیں محفوظ رہ سکیں ، ایسے حالات میں حکومت کو جنگل کے علاقوں کو بھی محفوظ رکھنا ہوگا کیونکہ جب تک ان جانوروں کے مقامات کو محفوظ نہیں کیا جاتا تب تک یہ حادثات رک نہیں سکتے ۔(چرخہ فیچرس)