اردو زبان کے تئیں مسلمانوں کی بے حسی

ہر قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبان کو زندہ رکھے۔مشتاق احمد نوری

نئی دہلی،ستمبر۔ بہار میں اردو کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشہور افسانہ نگار، شاعر اور بہار اردواکیڈمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری نے کہاکہ کسی بھی زبان کی پرورش و پرداخت اور نشرو اشاعت کا کا م صرف حکومت کا نہیں ہے بلکہ عوام کا ہے اور ہر قوم کی ذمہ داری ہے وہ اپنی زبان کو زندہ رکھے۔انہوں نے یہ بات یہاں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک نشست میں کہی۔انہوں نے کہاکہ زبان کا فروغ بیان بازی، اخباری بازی سے ممکن نہیں ہے جب تک کہ اردو قارئین پیدا نہیں ہوں گے اس وقت تک اردو پر خطرات کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں حکومت نے کب منع کیا ہے کہ ہم اردو نہ پڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ زندہ قومیں اپنی زبان کے تئیں بہت حساس ہوتی ہیں اور ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم اپنی زبان کے تئیں کتنے حساس ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے بچوں کو اردو ابتدائی سطح سے پڑھانی ہوگی۔مشہور نقاد اور متعدد کتابوں کے مصنف حقانی القاسمی نے کہاکہ مسٹرمشتاق احمد نوری فکشن کی دنیا میں بڑا نام ہے اور انہوں نے نہ صرف سیمانچل کی نمائندگی ادبی تحریروں کے حوالے سے کی ہے بلکہ پوری دنیا میں بہار اردو اکیڈمی کا نام بھی اونچا کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہار اردو اکیڈمی مشتاق احمد نوری سے پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ انہوں نے جس طرح اردواکیڈمی کے سکریٹری رہتے ہوئے اردو دنیا کی خدمت کی وہ اردو کی تاریخ سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ ان کی تحریریں علاقے کے ہر ہر پہلو کو بیان کرتی ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے مسٹر نوری کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے کہاکہ ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ چھوٹوں کی ہمت افزائی، بزرگوں کی خدمات کا اعتراف اور ہم عصروں کی قدردانی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جن لوگوں نے سیمانچل کو ادبی دنیامیں روشناس کرایا ہے ان میں مشتاق احمد نوری اور حقانی القاسمی کا نام نمایاں ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیمانچل اس وقت قومی سطح پر ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی ادبی دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس کا سہرا مسٹرنوری کے سر بھی جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ مسٹر نوری کے افسانوں، شاعری اور ان کی تحریروں میں مٹی کی خوشبونمایاں طور موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو کام فکشن میں پھنیشور ناتھ رینو نے کیا ہے وہی کام مسٹر نوری نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ اچھے ادیب، شاعر اور فکشن نگار کے ساتھ اچھے انسان ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔حکومت ہند کے مشہور رسالے یوجنا کے ایڈیٹر عبدالمنان نے سیمانچل کے لوگوں کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہم لوگوں کو اپنے محسنوں، ادیبوں، شاعروں اور اپنے بزرگوں کو ان کے انتقال کے بعد یاد کرتے ہیں اوران کے زندہ رہتے ان کی قدر دانی نہیں کرتے۔ انہوں نے کہاکہ زندہ قوم کی طرح ہمیں زندہ لوگوں کی قدر دانی اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا سیکھنا ہوگا کیوں کہ اس کے بغیر ہم اپنے لوگوں کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن انتخاب عالم نے کہاکہ مشتاق احمد نوری کا تعارف سابق رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر تسلیم احمد نے کرایا تھا اس وقت وہ انتظامی سروس میں تھے۔ انہوں نے کہاکہ بہار اردو اکیڈمی کو سجانے، سنوارنے اور ان کو شناخت عطا کرنے میں مسٹر نوری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔دہلی اردو اکیڈمی کے رکن اور سماجی کارکن ضیاء اللہ نے دہلی اردو اکیڈمی کے توسط سے دہلی میں اردو کی آبیاری کی کوشش جاری ہے اور ہماری کوشش ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر اردو کی جگہ کو پر کی جائے تاکہ اردو والوں کو روزگار مل سکے۔ انہوں نے کہاکہ بہار میں اردو کی حالت بہت خراب ہے بہت سی جگہیں خالی ہیں کیوں کہ حکومت کے کنڈیشن پر بہت سے امیدوار کھرے نہیں اتر رہے ہیں۔یو این آئی سے وابستہ صحافی عابدانور نے کہاکہ مسٹر نوری مستحق ادیبوں، شاعروں کو اردو اکیڈمی کی طرف امداد پہنچانے کے لئے بھی جانے جائیں گے جو انہوں نے ادیبوں، شاعروں کو ان کے گھر جاکر انعام کی رقم سپرد کی اور مقامی سطح کے شعرا ء کی ہمت افزائی کی۔اس موقع پر مشہور ادیب حقانی القاسمی کی کتاب ’کتاب کائنات‘ کا اجراء بھی عمل میں آیا۔

Related Articles