آگ کا مقابلہ آگ سے۔ کیا شعلے سے شعلے کو بجھایا جا سکتا ہے؟
کیلیفورنیا ،ستمبر-بات کچھ عجیب سی ہے مگر امریکہ میں آگ بجھانے والا عملہ اکثر آگ کے پیشِ نظر جنگل میں اس نباتات کو خود آگ لگا دیتا ہے جس کے آگ پکڑنے کا خطرہ ہو۔جمعرات کے روز فائر فائٹرز نے کیلیفورنیا کے جائنٹ فوریسٹ کیسیکوئیا نیشنل پارک میں چیڑ کے درختوں کے ایک تاریخی ذخیرے کی جانب بڑھنے والی آگ کا مقابلہ آگ سے کرنے کی کوشش کی۔کیلیفورنیا میں مہینوں سے جنگل کی آگ ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے اور تیزی سے آگ پکڑنے والے درختوں کو خود آگ لگا دینا ان بہت سے طریقوں میں سے ایک ہے جو آگ بجھانے والا عملہ استعمال کر رہا ہے۔ اور یہ آگ کو تیزی سے پھیلنے سے روکنے کی ایک کوشش بھی ہے۔اگرچہ صورتِ حال بدل جائے تو اس میں خطرہ بھی ہے لیکن آگ سے گھروں اور دیگر املاک کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ طریقہ اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔سکوئیا نیشنل پارک میں چیڑ کے 2,000 درختوں کو، جن میں دنیا کا سب سے بڑا درخت ‘جنرل شرمن ٹری’ بھی شامل ہے، جنگل کی آگ سے شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔آگ میں شدت اور تیزی کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو زمین جس کی ڈھلان میں اوپر کی جانب آگ تیزی سے پھیلتی ہے۔ دوسرے ہوا جو شعلوں کو پھیلاتی ہے اور تیسرے وہ تمام مواد جو آگ کے لییایندھن کا کام کرتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں پہلے دو عناصر ایسے ہیں کہ ان پر کسی کا کنٹرول نہیں مگر تیسرے عنصر یعنی ایندھن بننے والے مواد کو کم کرنے کے طریقے موجود ہیں۔یونیورسٹی آف واشنگٹن میں وائلڈ فائر ایکولوجی کی پروفیسر مورین کینیڈی کہتی ہیں کہ ایندھن ہی ایک ایسی چیز ہے جس میں کمی جنگل کی اس آگ کی شدت کم کر سکتی ہے۔اکثر ہوتا تو یہی ہے کہ بڑے پیمانے پر آگ لگ جائے تو فوری طور پر اسے روکنا یا اس پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا اور جنگل میں لگی آگ تو محاورۃً پھیلتی ہے۔ لیکن جنگل کی آگ سے لڑنے والے عملے کو اسے روکنے اور اس پر قابو پانے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی خود آگ لگانے اور اسے قابو میں رکھنے کے طریقوں کی اعلیٰ تربیت بھی دی جاتی ہے۔پال بروئلز امریکہ میں نیشنل پارک سروس کے سابق چیف آف فائر آپریشنز ہیں۔ وہ کہتے ہیں،”اس سے پہلے کہ آپ خود آگ لگائیں، آپ کو اسے قابو میں رکھنے کے طریقے معلوم ہونا ضروری ہیں۔”اکثر ایسے آپریشن رات کے وقت کیے جاتے ہیں جب درجہ حرارت گرنے لگتا ہے اور ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے۔ یہ دونوں باتیں آگ کے پھیلنے کو بھی کم کرتی ہیں۔آگ لگانے والے عملے کو یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ آگ غلط سمت میں نہ پھیلے اور اس کے لئے وہ ہوا کے ٹینکر اور بلڈوزر استعمال کرتے ہیں۔اگر سب کام پوری احتیاط اور درست طریقے سے نہ کیا جائے تو سکوئیا نیشنل پارک کی ترجمان ربیکا پیٹرسن کہتی ہیں کہ اس سے فائدے کی بجائے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔فائر فائٹرز نے جمعرات کے روز کیلیفورنیا کے جائنٹ فوریسٹ میں آگ لگانے کا عمل بہت محدود طریقے سے شروع کیا جس میں ہر ایک درخت کو بچانے کی کوشش کی گئی۔پیٹرسن کہتی ہیں کہ درختوں کے ارد گرد زمین پر پتوں اور گھاس پھونس کو بہت احتیاط سے آگ لگائی گئی اور ایسے کہ شعلے درختوں سے دور رہیں۔جنرل شرمن اور صنوبر کے درختوں کے گرد المونیم لپیٹا گیا، تاکہ انہیں حدت سے بچایا جاسکے۔جائنٹ فوریسٹ میں سکوئیا نیشنل پارک 50 سال پہلے تجویز کردہ یہ طریقہ استعمال کرنے والوں میں پہلا وسیع پارک ہے اور معمول کے مطابق اپنے علاقے کو جنگل کی آگ سے بچانے کے لئے آگ ہی کا استعمال کرتا آرہا ہے۔سکوئیا نیشنل پارک کی ترجمان ربیکا پیٹرسن کو امید ہے کہ جائنٹ فوریسٹ آگ سے بغیر کسی نقصان کے نکل آئے گا۔