وہ ماسائی ماسائی نہیں جو ہاتھ سے شیر کا شکار نہ کرے
ایک افریقی قبیلے اور شیر کے ساتھ ساتھ رہنے کی کہانی
نیروبی،ستمبر-جہاں تک انھیں یاد ہے، میئترنگا کامونو سیئتوتی ہمیشہ شیروں کو مارنے کے ہی خواب دیکھا کرتے تھے۔جب وہ جنوبی کینیا کے ماسائیوں کی سرزمین پر پروان چڑھ رہے تھے تو وہاں ہر طرف شیر تھے۔ ایمبوسیلی نیشنل پارک، جو اپنے ہاتھیوں، شیروں اور کیلیمنجارو کے پہاڑ کے نظارے کی وجہ سے بہت مشہور ہے، جنوب میں کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ شیر اور دوسرے جانور اس پارک اور ماسائی علاقے میں آزادانہ گھومتے تھے کیونکہ درمیان میں کوئی باڑ نہیں تھی۔ اور سیئتوتی یہیں رہتے تھے۔ماسائی کمیونل علاقے، جنھیں گروپ رانچیز بھی کہا جاتا ہے، اگرچہ ایک دوسرے سے جغفرائی لحاظ سے قریب ہیں، لیکن پھر بھی یہ نیشنل پارک سے بالکل ہی الگ تھلگ دنیائیں ہیں۔ایمبوسیلی کے اندر ہاتھی گہرے سبز دلدلوں میں گھومتے ہیں اور شیر چیتے اور ہائناز یا لگڑ بگڑ وائلڈبیسٹ اور بھینسوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ ان علاقوں سے آگے سخت زمینوں پر مخفی شیر ماسائی چرواہوں اور ان کے مویشیوں کے ساتھ لْکا چھپی کھیلتے ہیں۔ ان علاقوں میں خشک سالی کے دوران خاک اڑتی ہے اور بارش کے بعد یہاں کیچڑ کی دلدل بن جاتی ہے۔دیہی افریقہ کے بیشتر علاقوں میں اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ شیر اور دوسرے شکار کرنے والے جانور باڑ کے پیچھے نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں، اور زندگی دونوں کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ماسائی اور شیروں نے اس زمین کو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹا ہے۔ ماسائی اپنے آپ کو بھی اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شیروں کو دیکھتے ہیں۔ عظیم، اعلیٰ اور مضبوط۔ اس سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیر ہمیشہ ماسائی جنگجو کی ہمت کا حتمی پیمانہ رہے ہیں۔ بڑے ہونے کے عمل یا رائٹ ٹو پیسیج کو ’ما‘ زبان میں اولمائیو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں جب ایک نوجوان پختگی کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے اپنے آپ کو ایک اچھا جنگجو ثابت کرنے کے لیے شیر کو مار کر اپنی تیاری دکھانا پڑتی ہے۔جب سیئتوتی ابھی چھوٹے تھے تو ان کے خاندان والے انھیں شیر کے شکار اور شکار کرنے والے جانوروں سے لڑائی کی عجیب و غریب کہانیاں سناتے تھے۔ ان سے بھی بہت زیادہ توقع کی جا رہی تھی، کیونکہ صرف ان کے خاندان میں ان کے والد اور چچوں نے مل کر 15 شیر مارے تھے۔سیئتوتی نے 19 سال کی عمر میں اپنا پہلا شکار ایک شیرنی کا کیا تھا۔ اور اس کا پیچھا کر کے بہت قریب سے اس کے سینے میں اپنا نیزہ مارا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ شیرنی کے دو بچے جھاڑیوں میں گھس گئے تھے۔اس طرح کی ہلاکتیں بغیر کسی وجہ کے ہوتی تھیں۔ ماسائی اور شیروں شکار دو برابر کے دشمنوں کے درمیان موت کی جنگ سمجھی جاتی تھی۔ یہ ٹرافی ہنٹنگ نہیں تھی، جس میں اکثر نام نہاد شکاری شیروں کے سامنے آنے تک محفوظ پوشیدہ جگہوں میں چھپ کر انتظار کرتے ہیں، اور پھر اسے ایک طاقتور ہتھیار سے مار دیتے ہیں۔ شیر کو ایک نیزے کے ذریعے ہاتھ سے لڑائی میں مارنے کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماسائی شیروں کے شکار بھی نسبتاً کم ہی کرتے تھے، اور ان رسمی ہلاکتوں کا شیروں کی مجموعی تعداد پر بہت کم اثر پڑتا تھا۔اپنے پہلے شیر کے شکار کے بعد سیئتوتی نے اگلے برسوں میں مزید چار شیر مارے ہیں۔ وہ اپنی عمر کے لوگوں میں شیر کا شکار کرنے والے بہترین افراد میں سے ایک ہیں اور اپنے لوگوں کے لیے ایک ہیرو۔ ماسائی شیروں کے بغیر دنیا میں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی وہ یہ چاہتے ہیں۔سیئتوتی کہتے ہیں کہ ’اگر ماسائلینڈ میں شیر نہ ہوتے تو اس کا مطلب کچھ برا ہوتا۔ شیر کی دھاڑ جنگل میں خوشی کی علامت ہے اور خوش قسمتی کی بھی ہے۔‘لیکن پھر سب کچھ بدل گیا۔کئی دہائیوں سے ایمبوسیلی بیسن میں انسانی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور 2006 میں یہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی کہ ایمبوسیلی میں رہنے والے 100 شیر وہاں کے 35 ہزار ماسائی افراد اور 20 لاکھ مویشیوں کے ساتھ موجود تھے۔جب شیروں اور ان کے جنگلی شکار کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا تو شیروں نے مویشیوں کا ایسا شکار کرنا شروع کیا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، اور ماسائی افراد نے بھی شیروں کو مارنا شروع کر دیا، ’رائٹ ٹو پیسیج‘ کے لیے نہیں، بلکہ بدلے کے طور پہ۔ سنہ 2006 میں ماسائی افراد نے 42 شیروں کو نیزوں سے یا زہر دے کر مارا۔ یہ ایک بنیادی ثقافتی تبدیلی تھی جس سے ایمبوسیلی کے شیروں کا صفایا ہونے کا خطرہ پیدا ہوا۔سیئتوتی نے کئی برسوں بعد کہا کہ ’جب میں چھوٹا تھا تو بہت سارے شیر ہوا کرتے تھے۔ ہم نے انھیں تقریباً ختم کر دیا ہے۔‘تاہم، اس وقت سیئتوتی کو بڑی تصویر کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔سنہ 2006 میں چوتھا شیر مارنے کے بعد سیئتوتی کو گرفتار کر لیا گیا، کچھ عرصے کے لیے وہ قید رہے اور 70 ہزار کینیا کے شلنگ کا جرمانہ ہوا۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر اس کا ارتکاب ہوتا ہے لیکن پھر بھی کینیا میں 1977 سے باقی تمام شکار کی طرح، شیر کا شکار بھی غیر قانونی ہے۔ جیل سے رہا ہونے کے کچھ عرصے بعد سیئتوتی کی کچھ گائیں لاپتہ ہو گئیں۔ انھیں یقین تھا کہ یہ بھی کسی شیر کا کام ہے اور وہ انھیں لے گیا ہے۔ وہ اس کے کھوج میں دو شیروں کے پیروں کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے جنگل میں نکل گئے۔ کچھ گھنٹوں کے بعد وہ ایک سوئے ہوئے نر شیر کے ایک یا دو میٹر قریب پہنچے اور اس کے سینے میں نیزہ گھونپ دیا۔یہ جاننے کے لیے کہ واقعی شیر نے ان کی گائیں ماری تھیں سیئتوتی نے اس کا پیٹ چاک کیا۔ لیکن وہ خالی نکلا۔اچانک سیئتوتی کو احساس ہوا کہ انھوں نے ایک بے گناہ شیر کو مار دیا ہے۔ سیئتوتی نے وہاں موجود دیگر ماسائی نوجوانوں سے کہا کہ شیر مارنے کا کوئی جشن نہیں ہو گا۔ اگرچہ شیر کی گردن کے بال اور دم اہم ٹرافیاں تھیں اور ماسائی شکاریوں کے لیے بڑی اہمیت تھی، پھر بھی سیئتوتی نے شیر کی لاش کو جھاڑیوں میں پھینک دیا اور خاموشی سے گھر چلے گئے۔اس کے بعد کئی مہینے سیئتوتی کو چین نہیں آیا۔ وہ کسی سے نہیں ملتے تھے۔ جب دوسرے نوجوان جنگجو شیر کے شکار کے لیے نکلتے تو وہ گھر پر ہی رہتے۔ جلد ہی ان کے انکار پر باتیں ہونے لگیں۔ دوسرے انھیں طعنے دینے لگے۔ انھیں بزدل کہا گیا، جس کا انھیں بہت دکھ ہوا۔ لیکن وہ قائم رہے۔ انھیں پتہ تھا کہ وہ اپنے آخری شیر کا شکار کر چکے ہیں۔اس دوران سیئتوتی نے جانوروں کے تحفظ کے ایک پروگرام کے بارے میں سنا جو علاقے میں شروع ہوا تھا۔ لائن گارڈیئنز کے نام سے شروع ہونے والے اس پروگرام کی بنیاد بہت سادہ تھی: وہ نوجوان ماسائی جنگجو جنھوں نے کبھی شیروں کو مارا تھا وہ اب شیروں اور ماسائی برادریوں کے محافظ بن جائیں گے۔ وہ بھی انٹرویو کے لیے گئے۔پروگرام میں یہ بھی شامل تھا کہ مقامی ماسائی افراد نے دو امریکی ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر لیلیٰ حزاہ اور ڈاکٹر سٹیفنی ڈولرنری کے ساتھ کام کرنا ہے۔ان دونوں کو معلوم تھا کہ پروگرام کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ سیئتوتی جیسے مشہور جنگجو اور شیر کا شکار کرنے والے کو قیادت دی جائے۔ انھیں قائل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ جلد ہی لائن گارڈین کے طور پر شیروں کا سراغ لگا رہے تھے۔سیئتوتی جیسے جنگجو کبھی شیروں کا سراغ لگانے میں ماہر تھے تاکہ وہ انھیں مار سکیں۔ بطور لائن گارڈیئنز ان کا کام تھا کہ وہ کھوئی ہوئی گائیوں کو ڈھونڈیں بلکہ ان جوان چرواہوں کا بھی سراغ لگائیں جو جنگل میں کھو گئے ہوں، اور جنگل کے ان حصوں سے لوگوں کو خبردار کریں جہاں شیر موجود ہوں۔ جہاں کبھی جنگجو اپنی برادری کی حفاظت کے لیے شیروں کو مارتے تھے، اب وہ وہاں مویشیوں اور اپنے چرواہوں کو شیروں سے دور رکھنے میں مدد دے رہے تھے۔ اور جہاں کبھی نوجوان ماسائی مرد شیروں کو مار کر اپنی بہادری دکھاتے تھے، اب وہ اپنے ساتھی ماسائی افراد کو شیر کے شکار پر نکلنے سے روک کر ایسا کرتے تھے۔سیئتوتی کہتے ہیں کہ ’شیر کے شکار کو روکنا خود شیر کا سامنا کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔‘ایمبوسیلی نیشنل پارک کے شمال میں ایک ماسائی گروپ رانچ ’سیلنکے کنزروینسی‘ میں بطور لائن گارڈین اپنے پہلے دن سیئتوتی نے ایک خاص شیرنی کا سراغ لگانا شروع کیا۔ پہلے تو کسی کو سمجھ نہیں آیا کہ انھوں نے سب سے پہلے اس شیرنی کا سراغ کیوں لگانا تھا۔ آخر ایک رات کو انھوں نے ڈولرنری کے ساتھ مل کر شیرنی کو بے ہوش کرنے والے ٹیکے کی گولی ماری، اس پر ریڈیو کالر لگایا اور پھر اسے آزاد کر دیا۔حزاہ کہتی ہیں کہ ’روایتی طور پر جب ایک جنگجو اپنے پہلے شیر کو مارتا ہے تو اسے شیر کا کوئی نام دیا جاتا ہے جو ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔‘ سیئتوتی کا شیر کا نام میئترنگا تھا، جس کا مطلب ہے ’وہ جو سب پہلے تھا‘، اور یہ انھیں اس وقت دیا گیا تھا جب انھوں نے اپنے پہلے شیر کا شکار کیا تھا۔ ’اب وہ ایک شیر کو ٹریک کرتے ہیں اور یہ ان کا بن جاتا ہے۔ وہ شیر کو نام دیتے ہیں۔ نام دینا ہمارے تصور سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اب ہم حقیقت میں ماسائی برادریوں کو شیروں کی موت کا ماتم کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، کیونکہ اب ہر شیر کا ایک نام اور ایک کہانی ہے۔‘سیئتوتی نے شیرنی کا نام نوسیکی رکھا جو کہ دراصل اس علاقے کا نام تھا جہاں اسے کالر لگایا گیا۔ سیئتوتی نے بعد میں بتایا کہ نوسیکی دراصل شیر کا وہ بچہ ہے جو بچ نکلا تھا جب سیئتوتی نے 19 سال کی عمر میں اپنے پہلے شکار میں ایک شیرنی کو مارا تھا۔ انھوں نے نوسیکی کی ماں کو مارا تھا۔ اب انھوں نے اس کی اپنی بیٹی کی طرح حفاظت کرنے کی قسم کھائی۔سیئتوتی کہتے ہیں کہ ’پہلے میں روایتی وجوہات کی بنا پر قتل کرتا تھا، تاکہ یہ ثابت کروں کہ میں ایک جنگجو تھا۔ اس نے مجھے بڑا وقار دیا تھا۔ اس وقت بس یہی طریقہ تھا۔ اب مجھے شیروں کو بچانے میں بھی وہی اطمینان ملتا ہے جو مجھے انھیں مارنے میں ملتا تھا۔‘سیئتوتی جیسے لائن گارڈیئنز کا اثر فوری طور پر ہوا۔ یہ پروگرام سنہ 2007 میں صرف پانچ لائن گارڈیئنز کے ساتھ شروع ہوا۔ ان علاقوں میں جہاں لائن گارڈیئنز دوسرے کنزرویشن پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے وہاں شیروں کو مارنا تقریباً بند ہو گیا۔ باقی ہر جگہ شیروں کو مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مثال کے طور پر سنہ 2018 میں ان علاقوں میں جہاں لائن گارڈیئنز کام کر رہے تھے ایک بھی شیر نہیں مارا گیا جب کہ اس طرح باقی قریبی علاقوں میں 15 ہلاکتیں ہوئیں۔لائن گارڈیئنز پروگرام کے شروع ہونے کے بعد کے برسوں میں ان علاقوں میں شیروں کی کثاقت میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ مجموعی طور پر شیروں کی تعداد تین گنا ہو گئی اور اب 40 سے زیادہ لائن گارڈیئنز تقریباً چار ہزار مربع کلومیٹر میں گشت کرتے ہیں۔لائن گارڈیئنز کے طور پر کام شروع کرنے کے تقریباً 18 سال بعد سیئتوتی اب نیم ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اپنا علم جنگجوؤں کی نئی نسل تک پہنچا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے علم میں ’اہم ثقافتی طریقے جیسا کہ احترام، ساتھیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانا اور فطرت کا تحفظ‘ شامل ہیں۔وہ اور ان کے ساتھی لائن گارڈیئنز جو کبھی شیروں کے قاتل ہوا کرتے تھے اب شیروں اور مویشیوں دونوں کو بچانے والوں میں تبدیل ہو گئے ہیں جو کہ ماسائی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں اور یہ ایک قابل ذکر میراث بھی۔ اس عمل کے دوران انھوں نے ایک قدیم ثقافت کی روایتوں میں ایک نئی سانس پھونکی ہے جو بہت زیادہ زندہ ہے۔انتھونی ہام ’دی لاسٹ لائنز آف افریقہ: سٹوریز فرام دی فرنٹ لائن ان دی بیٹل ٹو سیو اے سپیشی‘ کے مصنف ہیں۔