مساجد کلاسز ہرگز بوجھ نہیں
بولٹن کی ڈائری۔۔۔ابرار حسین
برطانیہ میں ہر شخص کو اپنا نقطہ نظر آزادی سے پیش کرنے کی اجازت ہے اور جنگ لندن کی یہ روایت بھی ہے کہ کسی موضوع پر تہذیب کے دائرے میں رہ کر مختلف نقطہ نظر سامنے لائے جاتے ہیں اس تناظر میں ہماری رائے میں برطانیہ کے مسلمان بچوں کے لئے مساجد کلاسز بچوں پر ہرگز ہرگز بوجھ نہیں بلکہ یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہیں، ہماری رائے میں دوران ہفتہ بچوں کی مساجد کلاسز میں تعلیم کو تکلیف دہ اور سخت جسمانی سزا قرار دینا یہ صورت حال کی درست عکاسی نہیں اگر ایسا ہوتا تو پھر برطانیہ بھر میں والدین اپنے بچوں کو کیوں اس جسمانی مشقت میں ڈالتے، ہماری رائے میں اس خیال میں بھی کوئی وزن نہیں کہ بچے مساجد کلاسز میں جانے کی وجہ سے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں اور نہ ہی اس بات کی کوئی گارنٹی دی جاسکتی ہے کہ اگر بچے اسکول کی تعلیم کے بعد مساجد اسکولوں میں نہیں جائیں گے تو پھر وہ اسکول کا ہوم ورک بہتر طور پر کر سکتے ہیں بلکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مساجد کلاسز میں جانے والے بچے چونکہ اعلیٰ اخلاق سے مزین ہوتے ہیں، وہ اسکولوں میں بھی اچھے رویوں کے مظاہرے کرتے ہیں اور تعلیمی مدارج احسن طریقے سے طے کرتے ہیں اور جو بچے مساجد اسکولز میں نہیں جاتے یا بعد اسکول کی مثبت سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتے وہ اکثر و بیشتر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں ،وہ ہوم ورک کے بجائے انٹرنیٹ یا ٹی وی پر غیر اخلاقی مواد دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں مگر جو والدین بچوں کو باقاعدگی سے صبح اسکول بھیجتے ہیں، پھر مساجد، مدارس بھیجتے ہیں اور اپنی نگرانی میں کمپیوٹر ہوم ورک کراتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں ، البتہ مساجد اور مدارس میں تعلیم اور تربیت کے نظام کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے لیکن ان کلاسز کو دوران ہفتہ ختم کرنے سے برطانیہ کے اندر مسلمان بچوں کے بے راہ روی کا شکار ہونے کے شدید امکانات ہوں گے پھر ملک بھر کے اندر بے شمار حفاظ کرام اور قاری خواتین و حضرات کی ملازمتیں بھی ختم ہو جائیں گی یا پھر جزوقتی رہ جائیں گی پھر یہ سوال بھی ہے کہ کیا دیگر مذاہب جو ہیں، کیا ان کے بچوں کی مذہبی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں اگر عیسائی، یہودی، سکھ اور ہندو بچے اپنی مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کے اسکول کے نتائج پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے تو پھر مسلمانوں کے بچوں پر مذہبی کلاسز میں جانے سے منفی اثرات کیسے مرتب ہو سکتے ہیں،برطانیہ کے مسلمان بچوں کو مذہب سے جڑے رکھنے کی اشد ضرورت ہے،بچوں کی نشوونما میں جہاں اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا کردار ہے وہاں ان کی ذہنی نشوونما اور اپنے مذہبی اقدار سے جڑے رکھنے کے لئے دینی اداروں کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے باالخصوص برطانیہ اور دیگر مغربی معاشروں میں ان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے باالخصوص چھوٹی عمر کے بچوں یعنی نوعمر بچوں کے لئے مذہبی سرگرمیوں میں ملوث رہنا ان کے لیے تعلیمی استعداد بڑھانے کا باعث بنتا ہے ،کردار سازی کے عنصر کو تمام تعلیمی ماہرین تعلیم کا لازمی جزو سمجھتے ہیں، مذہب اسلام میں تو تعلیم کے ساتھ تربیت کو اگر خارج کر دیا جائے تو پھرمستقبل قریب میں برطانیہ میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل میں کہی مادہ پرست ذہن پیدا ہوں گے جب کہ مغربی ممالک باالخصوص برطانیہ کے اندر مسلم ممالک سے بھی زیادہ بچوں کو مذہب سے لگاؤ اور جڑے رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔