’بغاوت‘برداشت نہیں کی جائے گی
سابق افغان فورسز طالبان کے ساتھ ضم ہوجائیں:ترجمان
کابل،ستمبر,طالبان نے افغان فورسز کے سابق ارکان کو پیش کش کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ ضم ہوجائیں۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی جگہ شورش برداشت نہیں کی جائے گی۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دارالحکومت کابل میں سوموار کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ گذشتہ 20 سال میں تربیت یافتہ افغان فورسز سے کہا جائے گا کہ وہ طالبان کے ساتھ سکیورٹی اداروں میں دوبارہ شامل ہوجائیں۔انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے خلاف کسی بھی شورش یا بغاوت سے سختی سے نمٹا جائے گا۔انھوں نے وادیِ پنج شیر پرطالبان جنگجوؤں کے قبضے کی تصدیق کی ہے۔اس طرح انھوں نے اپنے خلاف بغاوت کے اہم مرکز کوپہلی مرتبہ فتح کرلیا ہے۔انھوں نے خبردار کیا کہ ’’طالبان شورشوں کے بارے میں بہت حساس ہیں۔جو کوئی بھی بغاوت کی کوشش کرے گا،اسے سخت دھچکا لگے گا۔ ہم کسی کو بھی شورش پسندی کی اجازت نہیں دیں گے۔جو کوئی بھی ہتھیاربند ہوکرمزاحمت شروع کرے گا،وہ ہمارا دشمن ہوگا۔‘‘ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’’جنگ ختم ہو چکی ہے، ملک بحران سے نکل رہا ہے۔ اب امن اورتعمیرِنوکا وقت آگیا ہے۔اس کام میں ہمیں عوام کے تعاون کی ضرورت ہے کہ وہ ہماری حمایت کریں۔‘‘طالبان کو کابل میں کنٹرول حاصل کیے تین ہفتے گزرگئے ہیں لیکن ابھی تک انھوں نے اپنی کسی حکومت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ترجمان نے اس بابت کہا کہ سب سے پہلے تبدیلیوں کی اجازت کے لیے’’عبوری نظام‘‘ کا اعلان کیا جائے گا۔البتہ ان کاکہناتھاکہ ’’حتمی فیصلے ہوچکے ہیں، اب ہم تکنیکی امورپرکام کر رہے ہیں۔ یہ تکنیکی مسائل حل ہوتے ہی ہم نئی حکومت کا اعلان کردیں گے۔‘‘طالبان کے لیے ایک اہم مسئلہ کابل میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنا ہے۔امریکی فوج نے اپنی حتمی انخلاء سے قبل اس کے بعض نظاموں کو ناکارہ بنا دیا تھا اور یہ ہوائی گذشتہ ایک ہفتے سے غیرفعال ہے۔اب قطر طالبان کے ساتھ مل کرہوائی اڈے کے تکنیکی نظام کی بحالی اوراس کوچلانے کے لیے کام کررہا ہے۔ذبیح اللہ مجاہد کے بہ قول ہوائی اڈے کی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔قطر کے علاوہ ترکی اور متحدہ عرب امارات کی تکنیکی ٹیمیں آلات اورسازوسامان کی مرمت کے لیے سخت محنت کررہی ہیں اوربین الاقوامی پروازیں جلد دوبارہ شروع ہوجائیں گی۔انھوں نے عالمی برادری سے کابل میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے کی اپیل کی ہے۔انھوں نے پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں سے مخاطب ہو کر یہ بھی کہا کہ ’’یہ افغانستان کا حق ہے کہ اس کو تسلیم کیا جائے۔‘‘