خواتین کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم، قانون بھی انسداد میں ناکام
عارف عزیز( بھوپال)
خواتین کے خلاف جرائم خاص کر جنسی جرائم میں تشویشناک اضافہ یقینا ایک مہذب سماج کے لئے بدنما داغ ہے۔ آئے دن اخبارات و الیکٹرانک میڈیا میں ایسی خبریں پڑھنے اور دیکھنے میں آتی ہیں۔ اکثر واقعات میں کوئی دوست یا جان پہچان والا ہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے بھی اِس بات کو تقویت ملتی ہے کہ خواتین اور بچیوں کے ساتھ مجرمانہ حرکت کے لئے اکثر قریبی لوگ ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ چند سال قبل دہلی میں ایسی ہی نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد ملک گیر سطح پر غم و غصہ اور برہمی پھیل گئی اور میڈیا میں بھی کئی دنوں تک یہ واقعہ چھایا رہا، حکومت کو بھی حرکت میں آنا پڑا اور قانون بنایا گیا اور اس کے بعد حالات وہی پرانی نہج پر پہنچ گئے۔ حالاں کہ نربھیا کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب ہندوستان میں ایسے مجرموں کو پناہ نہیں ملے گی اور ایسے واقعات کا تدارک بھی ہوگا، لیکن یہ صرف سراب ثابت ہوا۔ ہردن ملک کے کسی نہ کسی گوشہ میں ایک اور نربھیا کسی کی درندگی کا شکار ہوتی رہی اور ہورہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق صرف ۳۱ دسمبر کی شب ملک بھر میں زائد از ایک سو بتیس خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ یہ اعداد و شمار تو وہ ہیں جس کا کسی نہ کسی پولس اسٹیشن میں اندراج ہوا ہے جبکہ کئی واقعات کا تو اندراج ہی نہیں ہوتا۔ ایسے میں یہ سوچنا ضروری ہوجاتا ہے کہ ایسے واقعات کا تدارک کریں تو کیسے؟ صرف قانون اور پولس پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے اِس سے خود کو بری الذمہ قرار دینا کیا صحیح ہے؟ ہماری نظر میں یہ بالکل ٹھیک نہیں، کیوں کہ خواتین کے تحفظ کے لئے جب تک ہمارا سماج کمر نہیں کس لیتا تب تک ایسے واقعات کا سدباب ممکن نہیں، ہر شہری کو اس کے لئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ہر شہری کو اس ذمہ داری کو ادا کرنا ہوگا۔ اگر کہیں کسی گلی کوچہ میں کسی لڑکی کے ساتھ بدسلوکی ہورہی ہو تو خاموش تماشائی بن کر دیکھنا بند کرنا ہوگا، حد تو یہ ہوگئی کہ بعض افراد اس واقعہ کی ویڈیو گرافی تک کر لیتے ہیں، لیکن اس کو روکنے کے لئے آواز نہیں اٹھاتے۔ اس رویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ درندگی خود اپنے گھر تک بھی پہنچ جائے گی۔ اس تعلق سے ایک اور ضروری بات پر بھی ہمیں غور کرنا چاہئے۔ وہ ہے ہمارا بدلتا ہوا کلچر اور ہماری طرزِ زندگی میں سرایت کرتی ہوئی مغربیت۔ ہندوستان کی تہذیب، راوداری اور اخلاق والی تہذیب ہے، جو آج مفقود ہوچکی ہے۔ آج ہم مغربی تہذیب کی چکاچوند میں اس حد تک اندھے ہوگئے ہیں کہ فیشن اور عریانیت میں فرق کرنے کے قابل نہیں رہے اور نتیجہ میں وہ تمام برائیاں جو مغربی ممالک کا شیورہ رہیں، آج ہمارے ملک میں نظر آرہی ہیں اور اس سلسلے میں اگر کوئی لڑکیوں کے لباس پر نکتہ چینی کرتا ہے تو اسے نشان ملامت بنایا جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فیشن اور زمانہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا غلط ہے بلکہ آزادی نسواں اور فیشن کے نام پر جو غلط چیزیں اور باتیں عام کی جارہی ہیں، ان کی اندھی تقلید تو کسی صورت مناسب قرار نہیں دی جاسکتی۔