خاموش رہنے کی مجبوری


نام نہاد ہندو سنت یتی نرسمہا نند سرسوتی نے پچھلے دنوں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض باتیں کہیں جس کو لے کر اقلیتی فرقہ میں زبردست غم و غصہ دیکھا گیا جب کہ اکثریتی طبقے کے کچھ انتہا پسند سرسوتی کے دفاع میں آگئے اور اسے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ تک کا خطاب دے دیا، مگر اب اسی سمراٹ نے اکثریتی فرقے کی بہن بیٹیوں کے ساتھ ساتھ حکمراں بی جے پی کی خواتین وزراء اور کارکنان کے خلاف قابل اعتراض باتیں کہہ کر بھگوا چولے کو داغدار کیا ہے، اس مہنت نے خواتین کے خلاف ایسی گھٹیا زبان کا استعمال کیا ہے جو سڑک پر گھومنے والے شہدوں کی بھی نہیں ہوتی۔ مگر بی جے پی کی خواتین وزراء گالی کھاکر بھی خاموش ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اگر خود ساختہ سنت کے خلاف زبان کھولی تو ہندو سماج ناراض ہوجائے گا جو بی جے پی کی سیاست کے لیے خطرناک ہوگا۔ ایسے میں گالی کھاکر بھی خاموش رہنا معزز شخصیات کی مجبوری بن گئی ہے۔یتی نرسمہا نند سرسوتی نے جب سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبد الکلام کو ’جہادی‘ کہا تھا تب ہندو سماج کے ایک طبقے نے خوب چٹخارے لے کر اسے سنت کہا، مندر میں پانی پینے پر اقلیتی طبقے کے بچے کو پیٹا گیا پھر بھی سماج کے ایک طبقے نے اسے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کہہ دیا، لیکن سانپ کو دودھ کب تک پلایا جاسکتا ہے؟ سانپ تو سانپ ہے، اس کی فطرت ڈسنا ہے، اور وہ ضرور ڈسے گا۔ اس بار ہمارے ملک کے عوام کے ذریعہ منتخب کی گئیں عزتمآب خواتین وزراء اور خواتین لیڈران کو اس سنت نے کھلے عام گالی دی ہے اور ایسی ویسی گالی نہیں بلکہ بابا کی گھنونی زبان نے ایک زبان میں بی جے پی کی بڑی خواتین وزراء اور لیڈران کو ان کے ساتھ مرد سیاستدانوں کے بستر تک پہنچا دیا۔ سرسوتی کے مطابق سیاست میں اور خاص طور پر بی جے پی میں خواتین جب تک ایک لیڈر کے پاس سے دوسرے لیڈر اور دوسرے لیڈر سے تیسرے لیڈر کے پاس نہیں جاتیں، وہ آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہے ویڈیومیں یتی نرسمہا نند نے خواتین کے لئے اور ان کے خدوخال کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی ہے، اس زبان کو ایک سڑک چھاپ بھی استعمال کرنے میں ہچکچائے گا۔ تازہ ویڈیو کے بعد یتی کو دودھ پلانے والے بی جے پی لیڈر ضرور پچھتا رہے ہوں گے کہ انہوں نے یتی جیسے شخص کو بابا سمجھ کر دودھ پلایا۔ جس کی زبان اور نظریات، خواتین کے لئے اتنی گھٹیا سوچ کو دیکھ اور سن کر سڑک چھاپ شہدے بھی اسے اپنا مہا گرو ماننے لگے ہیں۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کی خواتین لیڈران اپنا ’مون برت‘ توڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ یعنی بھگوا پہن کر انہیں کوئی کچھ بھی کہہ کر چلا جائے، ملک میں کہیں بھی ان کی ساتھی خواتین کی ساڑی کھینچ لی جائے،ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ فرق بھی پڑتا ہوگا تو اقتدار کی لالچ میں عزت اور وقار کو گروی رکھ دیا ہوگا۔یوپی میں ایم پی، ایم یل اے اور وزراء کے طور سے مجموعی طور پر 60 خواتین اقتدار کے مزے لے رہی ہیں لیکن ان میں سے ایک نے بھی نرسمہا کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا، کسی خاتون نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے کردار اور وقار کی توہین کرنے والے بابا حد میں رہیں۔ خواتین لیڈران کو حکومت کا ڈر سمجھ میں آتا ہے، مگر حکومت اور انتظامیہ کو کس کا ڈر ہے جو ایسے بد زبانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہے۔ کیا مہذب سماج میں ایسے ہی لوگوں کو پروان چڑھایا جائے گا جو ایک دوسرے کو گالی دیں اور برا بھلا کہیں۔ پچھلے دنوں نئی دہلی کے پریس کلب میں جس وقت یتی نرسمہا نند سرسوتی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کر رہا تھا، اسی وقت اس کے خَلاف کارروائی کی جاتی تو آج نام نہاد باباؤں کو اس طرح کی گندی زبان استعمال کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ان سب کے لئے بی جے پی اور اس کی حکومت ذمہ دار کہی جا سکتی ہے جو یتی نرسمہا نند جیسے لوگ آج بھی کھلے سانڈ کی طرح گھوم گھوم کرسماج کو پراگندہ کر رہے ہیں۔

حیرت تو تب زیادہ ہوتی ہے جب ’انقلاب زندہ باد‘ نعرے لگانے والوں کو غدار ثابت کرنے کے لئے ہمارے میڈیا کا ایک طبقہ دن رات ایک کر دیتا ہے مگر یتی کے بیان پرمشتمل اس قابل اعتراض ویڈیو پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔ ہمارے میڈیا میں اتنی بڑی تبدیلی جمہوریت کو تباہ کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ حالیہ چند برسوں میں ہندوستان میں کسی اور شعبہ میں کوئی تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ میڈیا میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ میڈیا کے نقطہ نظر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ میڈیا اب غیر جانبدار نہیں رہا بلکہ ایک فریق بن گیا ہے اور ملک کے مذہبی ماحول کو پراگندہ کرنے میں سب سے زیادہ سرگرم رول ادا کر رہا ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ملک کو انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس نوعیت کے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن میڈیا کی اس پر کوئی توجہ نہیں ہوتی بلکہ عوام کو درپیش سنگین مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہندو۔ مسلم پروپگنڈہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔
حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے اور حکومت سے سوال کرنے کی بجائے میڈیا نے خود کو ایک مخصوص رنگ میں رنگ لیا ہے اور وہ حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں زیادہ مصروف ہے۔ حکومت کا دفاع خود حکومت کے ذمہ داران اتنا نہیں کرپاتے جتنا میڈیا نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ حکومت سے سوال کرنے کی بجائے اپوزیشن کے وجود پر ہی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی اہمیت کو افادیت پر سوال پوچھا جا رہا ہے جبکہ میڈیا کا یہ اولین اور بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو پیش آنے والی مشکلات اور مسائل پر حکومت وقت سے سوال کریں۔ اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ اس کی پالیسی ور فیصلوں کو جانچیں اور پرکھیں، لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے۔ بلکہ حکومت سے سوال پوچھنے والوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیتے ہوئے ان کی شبیہہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ویسے تو ابتداء سے فکرمند شہریوں کے گوشوں کی جانب سے اور دانشوروں کی جانب سے ملک کے موجودہ حالات اور میڈیا کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ رول پر تنقیدیں کی جا تی رہی ہیں اور ساتھ ہی حکومت کے فیصلوں کی بھی مخالفت کی جاتی رہی ہے، لیکن حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ سپریم کورٹ اور اس کے ججز نے حالیہ وقتوں میں کچھ مواقع پر ناقدانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا اور حکومت کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ کم از کم عدالتوں کا احترام کریں اور ان کی رائے کو محترم سمجھتے ہوئے اپنی روش میں تبدیلی کریں۔ موجودہ حالات جو ملک بھر میں پائے جاتے ہیں وہ میڈیا کی مرہون منت ہی کہے جاسکتے ہیں کیونکہ میڈیا نے ہر معاملے کو ہندو۔ مسلم کی عینک سے دیکھنا اور اسی نظریہ سے عوام کو دکھانا شروع کر دیا ہے

Related Articles