خانگی تشدد پر قابو پانے کیلئے قانون غیرموثر کیوں؟

عارف عزیز( بھوپال)
خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پوری دنیا میں بڑھ رہے ہیں لیکن اس کے لئے عام طور پر مسلمانوں کے شرعی قوانین کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص عالمِ عرب میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کا رواج نہیں ہے، اس سلسلے کے سب سے زیادہ واقعات اگر کہیں منظر عام پر آتے ہیں تو وہ ہندوستان ہے، جہاں کی مسلم آبادی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۱۴ فیصد سے زائد نہیں،جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں سے زیادہ دوسرے فرقوں میں عورتوں کی حیثیت کمتر سمجھ کر ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کو روا رکھا جارہا ہے،جہیز کیلئے بہوئوں کو زندہ جلا دینا یا بیویوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں خود کشی پر مجبور کردینے کی لعنت بھی مسلمانوں میں کم دوسری ذاتوں اور برادریوں میں زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ ان کے مذہب اور روایات کی وجہ سے طلاق کے حصول میں کافی دشواری پیش آتی ہیں جبکہ مسلمانوں کے عائلی قوانین کی رو سے اس میں کافی سہولت ہے۔نہ انہیں ناپسندیدہ بہوئوں کو زندہ جلانا، نہ بیویوں سے چھٹکارا پانے کے لئے انہیں خود کشی پر مجبور کرنا پڑتا ہے، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اقتصادی ترقی اور تعلیم کے فروغ کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔متحدہ ترقی پسند محاذ (یوپی اے) حکومت نے خانگی تشدد کے اس ابھار پرقابو پانے کے لئے ۲۰۰۶ء میں پارلیمنٹ سے منظور کراکر نافذ کردیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی خواتین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک سروے کے مطابق ملک کی چالیس فیصد خواتین اپنے شوہروں یا خاندان کے مردوں کے غیر ضروری غم وغصہ کی شکار بن رہی ہیں، سب سے زیادہ افسوس وتعجب کا پہلو یہ ہے کہ ۵۴ فیصد خواتین شوہروں کے اس رویہ کو ان کا حق قرار دیکر جائز ٹھہراتی ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس میں کوئی بھی قانون تشدد پر قابو پانے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔
ہندوستانی سماج میں صدیوں سے جاری روایات کے مطابق خاندانی معاملے داخلی طور پرہی سلجھا لئے جاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح کے خاندانی، سماجی اور ذات وبرادری کے سمجھوتے کے تحت یہ گاڑی آگے بڑھتی رہتی ہے، لیکن یہ تصور کا ایک پہلو ہے جبکہ دوسرا پہلو بتاتا ہے کہ اس طرح کے تمام خانگی سمجھوتے کسی نہ کسی دبائو کے تحت ہوتے ہیں۔ خاص طور پر خاندان کی عزت کے نام پر خواتین کو جھکنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں ہونے والے نصف سے زیادہ عصمت دری کے واقعات میں عزیز و رشتہ دار یا متعارف شخص ملزم ہوتا ہے لیکن عام طور پر خاندان کی عزت وناموس کی دہائی دیکر عورت کا منہ بند کردیا جاتا ہے، جہیز کے مطالبات سے لیکر روزمرہ کے معمولی معمولی واقعات تک کے لئے زیادتی کا شکار ہونے والی عورت اسی لئے کچھ نہیں کرسکتی کہ اسے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ خانگی تشدد کے صحیح اعداد وشمار بھی فراہم نہیں ہوتے۔ خواتین کمیشن نے عورتوں کے خلاف ہونے والے ۲۲ قسم کے تشدد کی فہرست تیار کی ہے لیکن اس میں بھی کمیشن کے پاس ان ہی لوگوں کے اعداد وشمار ہیں جو اس سے شکایت کرنے کے لئے پہونچتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسے لوگو ں کی تعداد کافی کم ہے، عورتوں کے خلاف تشدد روکنے کا سیل تو تھانوں میں قائم کردیا جاتا ہے لیکن جن دیہی علاقوں میں اور جن ناخواندہ عورتوں کے ساتھ سب سے زیادہ تشدد ہوتا ہے وہاں ان کی پہونچ نہیں ہے۔بہتر یہ ہوگا کہ عورتوں کے خلاف خانگی تشدد پر قابو پانے کیلئے قانون بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سماجی بیداری بھی لائی جائے تبھی اس میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ ایک مکمل اور ترقی یافتہ سماج کی پہچان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں خواتین ان کے خاطر خواہ حقوق میسر ہوں، ہندوستان اس بارے میں بہت بدنام ہے کہ یہاں سب سے زیادہ خواتین کو ظلم وزیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے۔٭

 

 

Related Articles