کیا یہ ملک کی ترقی و معکوس کا آئینہ نہیں؟

عارف عزیز( بھوپال)
معاشی نرم کاری کی پالیسیوں کے لاگو کرنے کا واحد مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اگر اس سمت میں مزید تاخیر کی گئی تو ہندوستان ترقی کی دوڑ میں نہ صرف پھسڈی رہ جائے گا بلکہ کروڑوں کی آبادی کو کمر توڑ محنت کے باوجود پیٹ کی آگ بجھانے کے لالے پڑیں گے اور ملک کی معاشی ساکھ کا بچنا مشکل ہوجائے گا۔ آج ان پالیسیوں کے نافذ ہوئے چوتھائی صدی کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن نام نہاد ترقی کے میٹھے پھل محض چند لاکھ یا کروڑ لوگوں کو ہی کھانے کو مل رہے ہیں، جبکہ ہندوستانی معیشت میں کبھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے کسان آج اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کو مجبور ہورہے ہیں۔ممبئی واقع اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں خودکشی کی شرح پندرہ فی ہزار کسان ہوگئی ہے۔ یہ رپورٹ کسانوں کے خراب ہوتے حالات کی خوفناک عکاسی کرتی نظر آرہی ہے۔ مگر آج جن باتوں پر زور ہے ان میں ایک طرح سے غیر ملکی سرمایہ کاروں سے بھیک مانگنے کے بالکل نئے طریقہ کی ایجاد ہے، جس کے مطابق یہ باتیں اکثر ہوتی ہیں کہ ہمارے ملک میں انڈیا اور بھارت دو طرح کے ملک بستے ہیں ایک کی آبادی مجموعی آبادی کے اسی فیصد سے زیادہ ہے اور دوسری کی محض پندرہ بیس فیصد ہی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی غرض ہر اعتبار سے بیس فیصد ہی پورے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ اتنا ہی نہیں غریب امیر کی کھائی مسلسل چوڑی ہوتی جارہی ہے۔ آکسفام کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ہندوستان دنیا کا تیسرا ایسا ملک ہے جہاں ارب پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ معاشی نرم کاری کی پالیسیاں لاگو ہونے کے بعد ۱۹۹۵ء اور ۲۰۱۴ء کے درمیان محض انیس برسوں میں تین لاکھ کسان خودکشی کرنے کو مجبور ہوئے۔ ساٹھ سال قبل زرعی سیکٹر کا جی ڈی پی میں اکیاون فیصد حصہ ہوا کرتا تھا جبکہ آج یہ گھٹ کر محض چودہ فیصد رہ گیا ہے اور ملک کی سرسٹھ فیصد آبادی اب بھی کھیتی کسانی پر گزر بسر کرتی ہے۔ یعنی اس دوران کسان کے لئے آمدنی کے ذرائع میں مسلسل سوکھا پڑتا چلا گیا اور زراعت پر مبنی معیشت کا فائدہ اٹھا کر صنعتکاروں، سیٹھ ساہوکاروں نے گلوبلائزیشن کا جم کر فائدہ اٹھایا ور یہ سلسلہ تھما نہیں ہے، بلکہ ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ہی مرکزی حکومت نے عوامی مفاد کی تمام مدوں میں زبردست کٹوتیوں کو ترجیح دی۔ چاہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت یا پھر کوئی دوسرا عوام کے مفاد سے جڑا شعبہ۔ حکومت کی ایک تازہ رپورٹ نے ہوش اڑانے والی ایک معلومات یہ بھی دی ہے کہ جہاں دس فیصد آباد کی آمدنی میں تیس سے چالیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وہیں نوے فیصد کی آمدنی محض تین چار فیصد ہی مشکل سے بڑھ پائی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ معاشی نرم کاری کی پالیسیوں کے لاگو ہونے کے بعد مارکیٹ کلچر پورے معاشرے پر اس طرح حاوی ہوا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے، جن کے بغیر بھی ان کی روز مرہ کی زندگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑنے والا۔ اس کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے کہ آج کل موبائل فون رکھنے والوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو غریب مزدور کسان اپنے خون پسینے کی کمائی اِن پروڈکٹس پر خرچ کر رہا ہے جن کا زندگی کے گزر بسر سے کوئی خاص رشتہ ہی نہیں ہے، ایک سہولت بھر ہے پھر ان رپورٹوں کا کیا ہوگا جو یہ بتاتی ہیں کہ ستر سے اسی فیصد ملک کی آبادی کی روزانہ کی آمدنی بیس روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ مارکیٹ کلچر کو اختیار کرنے کے لئے غریبوں اور چھوٹے کسانوں نے قرض کا سہارا لیا، پھر ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہ آنے پر خودکشی کو ہی گلے لگا لیا۔ ایک طرف ملک منگل یان اور چندریان پر ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرنے کو اپنی شان سمجھ رہا ہے اور دوسری طرف لوگ تنگی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ترقی کا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟

Related Articles