عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
گلیوں میں جائیں، محلوں کا جائزہ لیں، بازاروں میں دیکھیں ، دکانوں، مکانوں اوراداروں کا حال جانیں ، یقیناً مسلمانوں کی حالت بہت ہی خراب پائیں گے۔ ہم نے ایسے علاقے بھی دیکھیں ہیں جہاں پر نشے میں دھت مسلم عورتیں ہیں ، بچے ہیں اورمردوں کی نشے کی حد نہیں ہے، کئی مسلم عورتیں مسلمان تو ہیں لیکن نہ تو انہیںدین معلوم، نہ انہیں شریعت معلوم ہیں ، نہ خداکی پہچان ہے نہ رسول کا علم ہے۔ کئی سلم علاقوں میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ شام ہوتے ہیں سماجی برائیاں عام ہوجاتی ہیں، رات کے اندھیرے میں لوگ برائیوں کو آباد کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں، یہ کوئی افسانہ یا سنسنی پھیلانے کیلئے کہی جانے والی باتیں نہیںبلکہ حقیقت ہے۔ کئی عورتوں کو ایک دن میں شوہر کو چھوڑتے ہوئے دیکھا دوسرے دن کسی اور مرد سے نکاح کرتے ہوئے بھی دیکھا، یہاں نہ تو کوئی انہیںروکنے والاہیاورنہ انہیں اچھے برے کی تمیز سکھانے والاہے۔ یہ ہے ہمارا سماج اوریہ ہیں مسلمانوں کے وہ سلم علاقے جہاں پر شاید ہی کبھی اصلاح معاشرے کے نام پر جلسہ ہوتا ہے۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ اصلاح معاشرے کیجلسے مسجدوں کے احاطوں میں، تعلیم یافتہ لوگوں کے علاقوں میں، فنکشن ہال میں اورلاکھوں روپیوں کی لاگت سے تیار کردہ اسٹیجوں میں ہوتے ہیں۔ اب توکورونا کے ہم بھی اڈوانس ہوچکے ہیں اب ہمارے اصلاح معاشرے کے جلسے ، ویبینار، زوم،ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعہ سے اصلاح معاشرہ ، اصلاح اْمت، اصلاح قوم کے عنوانات پر جلسے کئے جارہے ہیں۔ جہاں پر بہت ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ گھنٹوں ہونے والی تقریروں، نصیحتوں اور حوالوں کو سنتے ہیں۔ پھر بھی معاشرے کا سلم علاقہ ،غریب طبقے کا علاقہ، مزدوروں کا علاقہ، معاشرے کی اصلاح سے دور رہتا ہے۔ باربارسوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارادین ایوانوں، جلسہ گاہوںاوراسٹیجوں کے ذریعہ سے پھیلا ہے۔ کیا اللہ کے رسول کے صحابہ دین کی دعوت کیلئے محلوں، گلیوںاور بازاروں کارخ نہیں کیا تھا۔ اگر اہل علم کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کسی خاص مسلک کے لوگ یا عقائد کے لوگ اس اصلاح معاشرے کے کام میں رکاوٹ پیدا کرسکتے ہیںتو وہ نوجوان جو سماجی کارکن کہلاتے ہیں کیا وہ اصلاح معاشرے کیلئیایسی ٹیم کی ترتیب نہیں کرسکتے جو ان علاقوںمیں اصلاحی کام کرسکیں، دین کو مکمل نہ سہی اچھے برے کی تمیز کو تو سکھاسکیں۔آخرہم وہ کونسے مسلمان ہیں جو بات دین پھیلانے کی تو کرتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں ناپید ہوچکے ہیں۔ علامہ اقبال ? نے کہا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
جب تک ہم اپنے معاشرے کو عملی طورپر تبدیل کرنے کیلئے پیش رفت نہیں کرسکتے اس وقت تک معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ آخر وہ کونسا معاشرہ ہے جو بگڑ کر جاکر ان جلسوں میں بیٹھتا ہے۔ بگڑے ہوئے لوگ تو ان جلسوں سے دور ہوتے ہیں۔ مسجدوں سے دور رہتیہیں، مکتبوں سے انکا کوئی لینا دینا نہیں ہوتاتو کیوں نہیں اصلاح کرنے والے ان لوگوں کے قریب نہیں جاتے جن کو ضرورت ہے۔ ہم دیکھ رہیںہیںکہ معاشرے میںہر کام محض قول تک محدود رہ گیا ہے۔ فعل میں فیل ہوگیا ہے۔ کئی ایسی سماجی برائیاں جن پر قلم اٹھانا خود اپنے معاشرے پر داغ لگانے کے برابر ہے وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں سن رہے ہیںاس پر کچھ کہنا بہت ہی مشکل بات ہے۔ آج امت مسلمہ مسائل کو حل کرنے ان کی نمائندگی کرنے، انکا لیڈربننے کیلئے کئی لوگ دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کے دعوے اس وقت کھوکھلے ہوجاتے ہیں جب کام کرنے کی بات سامنے آتی ہے۔ کچھ تنظیمیں اورادارے بظاہرسلم علاقوںکے لوگوں کے تعلقات میںرہتے ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ یہ لوگ راہ راست پر آئیں، نشے سے پاک رہیں، برائیوں سے دور رہیں، کیونکہ جتنی کمزوریاں ان غریبوں اورگنوار لوگوں میں پائی جائیںگی اتنا ہی بڑا فائدہ تنظیموں کیلئے ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے گھر پر کوئی کام کرنے والی ملازمہ آتی ہے تو آپ استطاعت ہونے کے باوجود اسکی تنخواہ نہایت معمولی دیتے ہیں ، اگرآپ چاہیں تو اچھی تنخواہ دے کر اسکی زندگی بدل سکتے ہیں اوراسے کسی کے گھرکے برتن دھلوانے سے بچا سکتے ہیں ، لیکن ہر کسی کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اگر اسے اچھی تنخواہ دی جائیتو وہ مالدار بن جائے گی اور وہ گھر کے کام کیلئے نہیں آئیگی۔ اس لئے انہیں کم تنخواہ دے کرہی رکھا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے معاشرے میں سب سے زیادہ جہاں کام کرنے کی ضرورت ہے وہاں پر کبھی بھی اصلاح کا کام نہیں ہوتا۔ اب مسلمانوں کو سوچ بدلنیکی ضرورت ہے اورانہیں چاہئے کہ وہ ایسے علاقوں میں اصلاحی کام کریں جہاں پر غربت، لاچاری ، بے بسی، جہالت اور تعلیمی پسماندگی موجود ہووہاں
پرصرف دینی تعلیم کیلئے انتظامات نہ کئے جائیں بلکہ عصری تعلیم کو بھی تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔