کورونا سے صحتیاب لاکھوں افراد میں گردوں کے امراض کے خطرے کا انتباہ
کورونا وائرس کے نتیجے میں لاکھوں کو ممکنہ طور پر گردوں کے ڈائیلاسز یا پیوندکاری کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
یہ انتباہ طبی ماہرین کی جانب سے جاری کیا گیا جو کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات پر کام کررہے ہیں۔
طبی ماہرین نے برطانوی پارلیمان کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیٹی کو بتایا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 90 فیصد مریضوں کو 2 سے 3 ماہ بعد بھی مختلف علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات، جوڑوں میں تکلیف، تھکاوٹ سینے میں درد کا سامنا ہوسکتا ہے۔
سالفورڈ رائل این ایچ ایس ٹرسٹ کے ماہرین ڈونل او ڈونوگوف نے بتایا کہ گردوں کو پہنچنے والا نقصان زیادہ بڑا خدشہ ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ وائرس براہ راست گردوں پر حملہ کرتا ہے جبکہ گردوں کو وائرس کے نتیجے میں پھیلنے والے ورم سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘عام حالات میں آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے 20 فیصد افراد میں ڈائیلاسز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کووڈ کے دوران یہ شرح 40 فیصد تک چلی گئی اور 85 فیصد افراد کو کسی قسم کے گردوں کے نقصان کا سامنا ہوا’۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معلوم نہیں کہ کتنے افراد کو زیادہ سنگین گردوں کے امراض کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر یہ اعدادوشمار ممکنہ طور پر بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘لاکھوں افراد کو ڈائیلاسز یا پیوندکاری کی ضرورت ہوسکتی ہے’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عام حالات میں ہر سال ساڑھے 6 ہزار افراد کو ڈائیلاسز اور پیوندکاری کے پروگرامز کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
لیورپول یونیورسٹی کے نیورولوجی کے پروفیسر ٹام سولومن نے کمیٹی کو بتایا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والوں کو زیادہ تعاون فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ڈاکٹروں نے متعدد مریضوں میں کووڈ 19 کے نتیجے میں مسائل کو دیکھا ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان افراد کو کس قسم کی ضرورت ہوسکتی ہے’۔
کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات پر کام کرنے والی تحقیقی ٹیم میں شامل لیسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر کرس برائٹلنگ نے اس حوالے سے بتایا کہ اٹلی میں ہونے والی تحقیق میں مزید سراغ فراہم کیے گئے ہیں کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس سے عندیہ ملتا ہے کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد ڈسچارج ہونے والے مریضوں کا جائزہ 2 سے 3 ماہ بعد لیا جائے تو صرف 10 سے 15 فیصد افراد ہی مکمل طور پر علامات سے محفوظ ہوتے ہیں’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی تحقیق میں شامل 50 مریضوں کے مکمل جسمانی اسکینز سے کووڈ 19 کے جسم پر مرتب اثرات کا انکشاف ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے گردوں، جگر، پھیپھڑوں اور دل کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھا اور کسی حد تک دماغ بھی متاثر ہوا۔ جن مریضوں کا 2 ماہ بعد جائزہ لیا گیا ان میں سے ایک تہائی سے زائد میں یہ اثرات دیکھنے میں آئے، ہمیں متعدد شواہد ملے ہیں کہ متعدد اعضا اس ایک بیماری کے نتیجے میں کس طرح متاثر ہوئے، جسے آغاز میں نظام تنفس کی ایک بیماری سمجھا گیا تھا’۔
اگرچہ ابھی زیادہ تر تحقیق ان افراد پر ہورہی ہے جو کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہے مگر پروفیسر کرس برائٹلنگ نے خبردار کیا کہ طویل المعیاد اثرات خاص طور پر تھکاوٹ اور دائمی تکلیف اس بیماری سے معتدل حد تک بیمار رہنے والے افراد کے لیے بھی مسئلہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ‘کچھ افراد کو شاید نمونیا ہوا ہو اور انہیں ہسپتال جانے کی ضرورت نہ پڑی ہو، مگر متعدد کو زیادہ اثرات کا سامنا ہوا ہوگا جس سے جسم کے متعدد اعضا متاثر ہوئے ہوں گے’۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کچھ مسائل شاید وقت کے ساتھ مزید بدتر ہو، جیسے گردوں کو پہنچنے والا ابتدائی نقصان یا ذیابیطس کا آغاز۔
ماہرین کی جانب سے کمیٹی کو ایسے شواہد بھی فراہم کیے گئے جن سے کووڈ 19 سے جسم کو اعصابی مسائل جیسے فالج اور دماغی ورم پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔
یہ بیماری دماغی صحت کے مسائل کا باع بھی بن سکتا ہے، چاہے لوگ کووڈ 19 کا شکار ہوئے ہوں یا نہیں۔
لندن کالج یونیورسٹی کے پروفیسر سبسٹین برانڈنر نے کہا کہ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ بیماری کس طرح مرکزی اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتی ہے۔
اگر کسی مریض کا انتقال کووڈ سے ہوجائے تو عام طور پر پوسٹمارٹم کی ضرورت نہیں ہوتی مگر ماہرین کے مطابق ایسا طبی تحقیق کے لیے کیا جانا چاہیے، تاہم ایسا ورثا کی اجازت سے ہونا چاہیے۔