ثالثی کا عمل باہمی طور پر فائدہ مند ہونا چاہئے: جسٹس این وی رمنا
حیدرآباد، اپریل۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس این وی رمنا نے کہا ہے کہ موجودہ دور میں ثالثی کی اہمیت بتدریج بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثالثی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتی ہے اوراس سے برسوں عدالتوں کے چکر لگانے کا درد دور ہو جائے گا۔ جسٹس این وی رمنا، سپریم کورٹ کی جسٹس ہیما کوہلی اور سنگاپور انٹرنیشنل میڈیشن سنٹر کے چیئرمین جارج لم نے اے آئی ایم سی حیدرآباد میں منعقدہ انڈیا میڈیشن ڈے پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر جسٹس این وی رمنا نے پہلے انڈیا میڈیشن ڈے پروگرام میں شرکت پر مسرت کا اظہار کیا اور اس خصوص میں تمام کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے ہندوستان میں ثالثی کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ ثالثی کا عمل تیز رفتاری اور ساکھ کے ساتھ کیا جانا چاہیے جو دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ثالثی میں مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں بطور جج 22 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے اور جسٹس گیشور راؤ نے حیدرآباد میں ثالثی مرکز کے قیام کے بارے میں کئی بار بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر وہ چھوٹے پیمانے پر ثالثی مرکز قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جسٹس ناگیشور راؤ نے اسے بین الاقوامی سطح پر ترقی دی ہے اور جسٹس کوہلی نے کافی تعاون کیا ۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میڈیشن سنٹر کے قیام کے پیچھے جسٹس ناگیشور راؤ کی کوششیں ہیں۔جسٹس ہیما کوہلی نے کہا کہ ثالثی قانونی نظام کا ایک اہم پہلو ہے۔ ثالثی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں ثالثی کی تین اقسام ہیں جن میں سے کورٹ ریفرل میڈیشن اور پرائیویٹ میڈیشن اہم ہیں۔جسٹس رویندرن نے کہا کہ حیدرآباد میں ثالثی مرکز کو دیکھ کر وہ حیران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ثالثی کے کلچر کو بڑھانے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ کئی افراد اب بھی ثالثی کے عمل سے واقف نہیں ہیں۔ اگر آپ اس کے بارے میں جانتے ہیں تو آپ کو اس کے فوائد بھی معلوم ہوں گے۔ عدالتی تنازعات میں بہت زیادہ وقت اور پیسہ ضائع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثالثی کے ذریعہ سینکڑوں کروڑوں کے مسائل بھی دنوں میں حل کئے جاسکتے ہیں۔