بیرونی چندہ ریگولیشن (ترمیمی) بل لوک سبھا میں پیش
نئی دہلی، بیرونی چندہ ریگولیشن (ترمیمی) بل 2020 کو آج لوک سبھا میں پیش کیا گیا جس کے ذریعے کسی بھی ادارے کی غیر ملکی چندہ وصول کرنے پر امن عامہ اور قومی سلامتی کے تئيں اس کی ذمہ داری طے کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔
اس بل کو وزیر مملکت برائے امور داخلہ نتیانند رائے نے لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2010 میں اس قانون میں پہلی ترمیم کرتے ہوئے، ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت میں وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا تھا کہ غیر سرکاری تنظیمیں غیر ملکی چندہ کی معلومات کیوں نہیں دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سالہ سرگرمیوں کی تفتیش میں کیا پریشانی ہے۔ مسٹر رائے نے کہا کہ حزب اختلاف کے اس خدشے کو غلط قرار دیا کہ اس سے اقلیتی اداروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔
اس سے قبل کانگریس کے منیش تیواری نے اس ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 1976 میں یہ قانون بناتے وقت اسٹریٹجک تناظر مختلف تھا۔ آج گزشتہ چھ سالوں سے حکومت کے خلاف بولنے یا کام کرنے والوں کے خلاف اس قانون کا استعمال ہورہا ہے۔ اس بل کے ذریعے لوگوں اور تنظیموں کو سیاسی بدعنوانی اور انتقام کا نشانہ بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے معلوماتی انقلاب کے دور میں، ایسے قوانین کو نرم کرنے کی ضرورت ہے، سخت بنانے کی نہیں۔
ترنمول کانگریس کے پروفیسر سوگت رائے نے کہا کہ اس بل میں سرکاری ملازم کو رعایت دی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سب کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی نئی دہلی برانچ کے ذریعہ غیر ملکی چندہ لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی چند کو کسی کنٹرول سے پاک کی ضرورت ہے۔ اس میں صرف دھوکہ دہی کی صورت میں سخت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس قانون کو سخت تر بنانے سے اقلیتی اداروں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔
کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آدھار کارڈ کو انکم ٹیکس ریٹرن اور پین کارڈ سے منسلک کرنے کا اختیار دیا ہے۔ اسے شناخت کا سرکاری دستاویز نہیں شمار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو کسی بھی سیاسی پارٹی کی سیاسی مخالفت کو دبانے کے لئے ہتھیارنہیں دیا جاسکتا۔