افغانستان:طالبان کی وزارتِ صحت کے زیراہتمام پولیوویکسی نیشن کی سالانہ مہم کا آغاز
کابل،مارچ۔افغانستان کی وزارتِ صحت نے سوموار سے اپنی سالانہ پولیو ویکسی نیشن مہم کا آغاز کیا ہے۔اس کا مقصد 90 لاکھ بچوں تک پہنچنا ہے، یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب طالبان کے دورِحکومت میں پولیوکے قطرے پلانے کی مہم چلائی جارہی ہے۔افغانستان اورہمسایہ پاکستان ہی آخری دو ممالک ہیں جہاں پولیو کے کیس ہنوزمنظرعام پرآرہے ہیں۔یہ ایک لاعلاج اورانتہائی متعدی بیماری ہے جو چھوٹے بچّوں کے اپاہج ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔گذشتہ کئی عشروں پرمحیط ویکسی نیشن کی مہم کے ذریعے عالمی سطح پرپولیو کا عملی طور پر خاتمہ کردیا گیا ہیلیکن عدم تحفظ، ناقابل رسائی علاقے، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور بیرونی مداخلت کے شْبے نے افغانستان اورپاکستان کے کچھ علاقوں میں بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کو متاثر کیا ہے۔افغانستان کے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سنٹر(ای او سی) برائے انسداد پولیوکیڈائریکٹرنیک ولی شاہ مومن کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے اور لڑائی بند ہونے کے بعد اب بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے مزید کئی علاقوں تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔ای او سی کی نگران افغان وزارت صحت ہے اور اس میں عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال سمیت بین الاقوامی ایجنسیاں شامل ہیں۔طالبان نے حالیہ مہینوں میں غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) میں کام کرنے والی بہت سی خواتین کارکنوں پر پابندی عایدکردی ہے اورانھیں جامعات اورہائی اسکولوں میں تعلیم کے لیے جانے سے روک دیا ہے۔تاہم ڈاکٹرولی شاہ کاکہنا ہے کہ خواتین ویکسی نیٹرز اس مہم میں شامل ہیں اورکام کررہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ خواتین ان بچّوں تک رسائی حاصل کرنے کے لییاہم ہیں جواکثر اپنی دیکھ بھال کرنے والی ماؤں اورخواتین کے ساتھ گھر پر ہوتے ہیں اور وہ عام طور پر مرد ویکسی نیٹرز کے ساتھ بات چیت کرنے میں خود کومطمئن محسوس نہیں کرتی ہیں۔ڈاکٹرنیک ولی شاہ مومن نے کہا کہ جن علاقوں میں ویکسی نیشن ٹیموں کوزیادہ فاصلہ طیکرناپڑتا ہے، وہاں حکام نے خواتین عملہ کومردرشتہ دارساتھ رکھنیکی ضرورت تھی۔انھوں نے بتایا کہ ان خواتین ویکسی نیٹرز کے خاندان کے مردوں کو ٹیموں میں شامل ہونے کے لیے تربیت دی گئی ہے اور انھیں بھی ویکسی نیشن ٹیموں کا حصہ بنادیا گیا ہے۔واضح رہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں بھی بعض جنگجودھڑوں نے ماضی میں ویکسی نیشن کی مہم میں حصہ لینے والوں کواپنے حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔سنہ 2022 میں شمالی افغانستان میں حملوں میں آٹھ کارکنان ہلاک ہوگئے تھے۔طالبان کے قائم مقام وزیرصحت قلندرعباد نے کہا:’’پولیو کے خاتمے کے لیے والدین، کمیونٹی رہنماؤں، قبائلی عمائدین اور مذہبی زعماء سمیت تمام افغانوں کی حمایت اہم ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ پولیو کے خلاف اس جنگ میں حصہ لیں‘‘۔ماہرینِ صحت کا کہناہے کہ طالبان کا مثبت کردارخطے کے قدامت پسند علاقوں میں ویکسی نیشن مہم کی قبولیت کی حوصلہ افزائی میں مدد دے سکتا ہے۔وبائی امراض کے ماہراور پاکستان میں قائم کنسلٹنسی فرم گلوبل ہیلتھ اسٹریٹیجسٹس اینڈ امپلی منٹرزکے سی ای اوراناجواداصغر نے کہاکہ ’’پولیومہم میں طالبان کی فعال شرکت ایک بہت ہی مثبت اوربڑی پیش رفت ہے۔ پاکستان اورافغانستان دونوں میں پولیو کیخاتمے کی مہم میں مذہبی رہ نماؤں کا کرداربڑااہم ہے‘‘۔