’محنت اور نتائج کے عزم‘نے’طواف کی روایت‘ختم کی۔ مختار عباس نفوی
نئی دہلی،وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے چھ سالہ دور کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم، مسٹر نریندر مودی نے اقتدار کے گلیارے سے ’طواف کی روایت‘ کو ختم کرکے ’محنت اور نتائج‘ کی توثیق کی اور اقتدار اور سیاست کے گلیارے میں، دہائیوں سے چکّر لگانے کو ہی ’شان‘ سمجھنے والے ’محنت اور نتائج‘ کے کام کرنے کی تہذیب کی بنا پر حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔ اسی’بہتر نتیجے کے حصول کے منتر‘نے اقتدار کے گلیا رے سے اقتدار کے دلالوں کو’چھو منتر‘کیا۔
یہ بات انہوں نے اپنے بلاگ میں کہی ہے۔ انہوں نے بلاگ میں لکھا ہے کہ2014 سے قبل، ائیر پورٹ پر وزیر اعظم کو چھوڑنے جانا اور لینے جانا، کابینہ کے ممبروں کا’دکھاوا‘ مانا جا تا تھا۔ دہائیوں سے جاری یہ سامنتی نظام ختم ہوا، سرخ بتّی، سرکاری رعب دکھانے کا غیر ضروری حصّہ بن چکی تھی، جاگیر دارانہ نظام والی سرخ بتّی تاریخ کا حصّہ بن گئی۔ اراکین پارلیمنٹ کو دی جانے والی سبسڈی ان کو’پیدائشی حق‘ لگتا تھا، جس کا خاتمہ ایک جھٹکے میں ہوا۔ وزیر، رکن پارلیمنٹ نہ ہونے کے باوجود، کچھ لوگوں کو سرکاری بنگلوں پر قبضہ برقرار رکھنا اُن کا اپنا ’آئینی حق‘ لگتا تھا، اسے ختم کردیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وزارتوں کی جانب سے مارچ سے پہلے بجٹ کو اُول۔جلُول طریقے سے اربوں روپئے خرچ کرنے کے نظام کو ختم کرنا حکومت کی اوّلین ترجیح تھی، جس کی وجہ سے مناسب طریقے سے خرچ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا تی تھی، یہ ضمنی، دقیانوسی نظام ختم ہوا۔ وزیر اعظم، وزراء، عہدیداروں کے ایک دن کے بیرونی دورے کے کام کے لئے دس دن سیر سپاٹے اور لاکھوں خرچ کرنے کے نظام کو، خود وزیر اعظم کے اپنے دوروں پر، صرف کام کی سفری حد کو متعےّن کر کے پوری حکومت کی سوچ میں بڑ ے پیمانے پرتبدیلیاں ہوئیں۔
حکومتیں بدلتی تھیں، وزیر بدلتے تھے مگر برسوں سے وزرا کے نجی عملے وہی رہتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھ کہ اقتدار کے گلیاروں میں گھومنے والے دلال اور بچولئے اُس نجی عملے کے ذریعہ سرکار پر اپنی پکڑ جاری رکھتے تھے۔ دس برسوں سے جمے نجی عملے کو منترالیہ میں رکھنے پر رو ک لگا کر وزیرِ اعظم جناب نر یند ر مودی نے پیشہ وَر بچولیوں کے پَر کتر دئے۔اس سے قبل، وزیر اعظم، سکریٹری اور اس کے نیچے کے عہدیداروں سے بھی بات چیت نہیں کر تے تھے یا رابطہ نہیں رکھتے تھے، زمینی رپورٹ کی ذاتی طور پر معلومات نہیں رکھتے تھے، جسے وزیر اعظم نریندر مودی نے تبدیل کرکے وزیروں کے ساتھ ساتھ سینئیر عہدیداروں کے ساتھ بھی "بات چیت اور فیڈ بیک کے کلچر” کو متعارف کروایا۔ جس کی بناء پر بیوروکریسی کی جواب دہی اور ذمہ داری میں اضافہ ہوا ہے، پدم ایوارڈ جیسے ممتاز اور باعزت ایوارڈ، جو پہلے صرف سیاسی سفارشات کے ذریعے دیئے جاتے تھے، آج ان لوگوں کو یہ پُر وقار ایوارڈ دیا جارہا ہے جو واقعتا اُس کے مستحق ہیں۔یہ تمام باتیں ہو سکتا ہے معمو لی ہوں، لیکن "طاقت کے طواف” کے بجائے ” محنت اور نتائج” کے لئے کام کے کلچر کو پیدا کرنے کی سمت میں سنگ میل ثابت ہوئی ہیں۔
انہوں نے بلاگ میں دعوی کیا کہ کورونا کے پیچیدہ دور میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی حساسیت، سرگرمی اور ملک کو اس بحران سے نجات دلانے میں مرکزی کردار نے ملک کے عوام کا اعتماد بڑھایا۔ ایک طرف کوروناکا قہر، دوسری طرف سرحدوں کی حفاظت، تیسری طرف زلزلے، طوفان، سیلاب جیسی قدرتی آفات کے چیلنج، اسی درمیان ٹڈیوں کے ذریعہ فصلوں کی بربادی اور ” پھسڈّیوں ” کی بکواس بہادری بھی چلتی رہی۔