پوتین کی مداخلت کے بعد اسرائیل کی ایران پر حملے کی کھڑکی ’مزیدتنگ‘ ہوگئی

تہران/تل ابیب،مارچ۔ایران روس سے جدیدترین فضائی دفاعی نظام خریدکررہا ہے جس کے بارے میں اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ اس سے تہران کے جوہری پروگرام پر ممکنہ حملے کی کھڑکی مزید تنگ ہوجائے گی۔اسرائیل اورامریکامیں حکام کاکہنا ہے کہ روس سے ایران کو ایس-400 میزائل دفاعی نظام ملنے کے امکان سے ممکنہ حملے کے بارے میں فیصلے میں تیزی آئے گی۔روس نے عوامی طورپریہ نہیں بتایاہے کہ آیاوہ ایران کو یہ جدیددفاعی نظام مہیا کرے گا، لیکن ماسکو کے یوکرین پرحملے کے بعد سے روس اورایران قریب آ چکے ہیں اور ان میں دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔ ایس 400 نظام کو آپریشنل ہونے میں دو سال سے بھی کم وقت لگے گا۔نیتن یاہونیگذشتہ ہفتے تل ابیب میں ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایران پرحملے کے بارے میں کہا تھا کہ ’’آپ جتنا زیادہ انتظارکریں گے، اتنا ہی مشکل ہوجائے گا۔ہم نے بہت طویل انتظارکیا ہے۔میں آپ کوبتا سکتا ہوں کہ میں ایران کو جوہری ہتھیارحاصل کرنے سے روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کروں گا‘‘۔امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے گذشتہ جمعہ کوکہا تھا کہ روس نے ایران کو میزائلوں،الیکٹرانکس اور فضائی دفاع سمیت غیر معمولی دفاعی تعاون کی پیش کش کی ہے اور وہ تہران کو لڑاکا طیارے بھی مہیّاکرسکتا ہے۔اسرائیل کوامید ہے کہ امریکا ایران کے خلاف کسی بھی ممکنہ حملے کی قیادت کرے گا۔اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے فوجی کارروائی سے انکار نہیں کیا ہے ، لیکن وہ سفارت کاری کوترجیح دیتی ہے۔ایران نے حالیہ برسوں میں اسرائیل پر اپنے جوہری سائنس دانوں کو قتل کرنے کے علاوہ ہیکنگ اور جوہری تنصیبات میں دیگرتخریب کاری کا بھی الزام عاید کیاہے۔اسرائیل سرکاری طورپران الزامات کی تصدیق نہیں کرتا ہے لیکن امریکا اوراسرائیل دونوں میں حکام کی طرف سے انھیں بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ایران کا کہنا ہے کہ اس کا دہائیوں پرمحیط جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ وہ جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتاہے۔ڈرون اور لڑاکا طیارے دسمبر میں امریکا نے کہا تھا کہ روس یوکرین کے خلاف ماسکو کی جنگ کے لیے ڈرونز کے بدلے میں ایران کی فوجی معاونت بڑھارہا ہے۔جنوری میں ایک ایرانی قانون سازنے کہا تھا کہ تہران مارچ کے وسط تک روس سے ایس یو-35 لڑاکا طیاروں کی آمد کی توقع رکھتا ہے۔ماسکو میں مقیم مشرقِ اوسط کے امورکی ایک ماہر ایلینا سوپونینا کا کہنا ہے کہ روس کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور تہران مزید حمایت کا منتظر ہے۔واضح رہے کہ امریکااورپانچ دیگرطاقتوں نے 2015 میں ایران کے ساتھ پابندیوں میں نرمی کے بدلے میں اس کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے پردست خط کیے تھے۔اس کے بعد روس نے ایران کوکم جدید فضائی دفاعی نظام ایس 300 فروخت کیا تھا۔ یہ جوہری معاہدہ 2018 میں اس وقت متروک ہوگیا تھا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے یک طرفہ طورپردست برداری اختیار کرلی تھی۔برطانیہ میں قائم دفاعی انٹیلی جنس فرم جینز میں مشرق اوسط کے دفاعی امورکے ماہر جیریمی بینی نے کہا کہ ایس -400 250 کلومیٹر (150 میل) تک کی رینج پر فضائی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔یہ زیادہ بلندی پرپرواز کرنے والے طیاروں کے لیے ریڈ زون تشکیل دے گا۔اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق اعلیٰ عہدہ دار اوراب سکیورٹی فورسزکے سابق اورریزرو ارکان کی تنظیم اسرائیل ڈیفنس اینڈسکیورٹی فورم کے سینیرمحقق یوسی کوپرواسر کا کہنا ہے کہ ’’ان کے پاس جتنا زیادہ فضائی دفاع ہوگا،انھیں نشانہ بنانا اتنا ہی مشکل ہوگا۔ "ہم تجزیہ کر رہے ہیں کہ کارروائی کرنے کا سب سے آسان وقت کب ہے‘‘۔اسرائیلی حکام نہ صرف ایران کی فضائی حملے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پرنظررکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی جوہری بم بنانے کی صلاحیت پر بھی نظررکھے ہوئے ہیں۔واشنگٹن میں قائم فاؤنڈیشن برائے دفاع جمہوریت کے سربراہ مارک ڈوبووٹزنے تل ابیب میں ایک انٹرویو میں کہاکہ ان کا اندازہ ہے کہ ایک بار جب ایران ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو ان کے لیے پہلا وارہیڈ بنانا 18 سے 24 ماہ کے درمیان ممکن ہوگا۔امریکی صدرجو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایران سے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی لیکن تہران پرمذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا الزام عاید کیا۔اسرائیل میں امریکی سفیر ٹام نائڈس نے حال ہی میں اس ضمن میں صہیونی ریاست کے نقطہ نظر کو سمجھنے کا اشارہ دیا ہے۔دبئی میں قائم سکیورٹی ریسرچ گروپ اینجما کے بانی اورچیف ایگزیکٹیوآفیسر ریاض قہواجی کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک کو کچھ خطرات لاحق ہوں گے لیکن بہت سے لوگ امید کررہے ہیں کہ اسرائیل کارروائی کرے گا، بھلے ہی وہ چند سال کے لیے ایرانی جوہری عزائم کو پس پشت ڈال دے‘‘۔

Related Articles