ہمارا مقابلہ دہشت گردوں سے ہے پرامن مظاہرین سے نہیں:ایرانی وزیر خارجہ
جنیوا /تہران،فروری۔ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نیکل سوموار کے روز دعویٰ کیا کہ ان کے ملک کو پرامن مظاہروں کا نہیں بلکہ دہشت گرد جماعتوں کا سامنا ہے۔جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کیاجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کو فروغ دینے والیعناصر کی بدنیتی پر مبنی مداخلت کے بعد پرامن شہری پرتشدد ہو گئے ۔کل سوموارکو جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اجلاس میں متعدد شرکاء نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی تقریر کے دوران سیشن چھوڑ دیا۔ بائیکاٹ کرنے والے مماملک کیمندوبین کا کہنا تھا کہ ایرانی وزیر خارجہ کے خطاب میں بہت سے معاملات پر جھوٹ بولا گیا۔
ہم نے دہشت گرد گروپوں کا مقابلہ کیا :اپنی تقریر میں عبداللہیان نے دعویٰ کیا کہ ان کے ملک کو دہشت گرد گروپوں کا سامنا ہے، پرامن مظاہرین کا نہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی ایرانی جیلوں میں سلاخوں کے پیچھے سینکڑوں قیدیوں کی موجودگی کی تصدیق کے باوجود عبداللہیان نے دعویٰ کیا کہ مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والے ہر شخص کو رہا کر دیا گیا ہے۔ایرانی اہلکار نے اپنے متضاد بیانات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے انسانی حقوق کا احترام ایک اہم قدر ہے جو ہمارے عقائد میں پیوست اور جڑی ہوئی ہے۔
ایرانیوں کو ڈرانے کے لیے پھانسی کا ہتھیار:عبداللہیان کے بیانات ان کے ملک میں حکومت کی جانب سے کئی مہینوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کو دبانے کے بعد سامنے آئے ہیں، جن میں گرفتاریاں، جیلوں میں تشدد اور مظاہرین کو دھمکانے کے لیے سرعام پھانسی دینا شامل ہے۔سیکڑوں احتجاجی قیدی اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں، جب کہ ان میں سے تقریباً 5 کو پھانسی دے دی گئی ہے۔گذشتہ 16 ستمبر سے ایران میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد احتجاجی تحریکیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ امینی ایران کی مذہبی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد مبینہ تشدد سے انتقال کرگئی تھیں۔ امینی کی موت کے بعد ایران بھر میں کئی ماہ تک پرتشدد مظاہرے ہوتے رہے۔