ایرانی اپوزیشن رہ نما میر حسین موسوی کا نئے آئین کی تیاری کا مطالبہ
تہران،فروری۔ ایران میں نوجوان خاتون مہسا امینی کے قتل کے بعد حکومت اور ایرانی رجیم کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب ایران کی سرکردہ سیاسی شخصیات نے ایران میں موجودہ آئین کی جگہ نئے آئین کی تدوین اور نفاذ کا مطالبہ بھی شروع کر دیا ہے۔ایران کیسرکردہ اپوزیشن رہ نما اور سبز انقلاب تحریک کے سرخیل میر حسین موسوی نے ایران میں نئے ایران کی تیاری اور اس کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ممتاز ایرانی لیڈر میر حسین موسوی سنہ 2010ء سے گھر پر نظر بند ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئین کا مکمل نفاذ جس کی انہوں نے 13 سال پہلے بات کی تھی اب کافی نہیں ہے۔ ایران کو بچانے کے لیے اب ایک نئے آئین کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے کل ہفتے کے روز کے روز ایک بیان میں مزید کہا کہ ایرانی انقلابی تبدیلی کے لیے تیار ہیں جس کے بنیادی خطوط اس تحریک کے ذریعے کھینچے گئے ہیں۔ اس میں عورت، زندگی، آزادی کا نعرہ سب سے بلند ہے۔گذشتہ اکتوبر میر حسین موسوی نے ایرانی مسلح افواج سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سچائی اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں۔انہوں نے سکیورٹی اداورں کی طرف سے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مٹھی بھرمظاہرین کو کچلنا اور عوام کو آئینی احتجاج سے روکنا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔قابل ذکر ہے کہ ستمبر کے وسط میں مہسا کے قتل کے بعد سے ایران میں کئی مہینوں وسیع پیمانے پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ احتجاج کا یہ سلسلہ ملک کے بیشتر علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مظاہرین میں یونیورسٹی اور اسکول کے طلباء کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں اور فنکاروں نے بھی پیش پیش ہیں۔عوامی احتجاج کے بعد حکومت کو جبری نقاب کو ختم کرنا پڑا ہے لیکن سکیورٹی فورسز مظاہرین کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی پالیسی اور ان کے ظالمانہ کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔مشتعل مظاہرین ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کی تصاویر نذرآتش کر رہے ہیں اور حکومت کی جبر وتشدد کی پالیسی کے باوجود وقفے وقفے سے احتجاج کرتے ہیں۔احتجاج کایہ سلسلہ گذشتہ برس ستمبر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب تہران میں مذہبی پولیس ’گشت ارشاد‘ نے ایک نوجوان لڑکی کو ایران کے وضع کردہ مذہبی لباس کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ گرفتار کی گئی لڑکی مہسا امینی کو دوران حراست مبینہ تشدد کرکے جان سے مار دیا گیا جس کے بعد پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا تھا۔