100 سٹار لنک ڈیوائسز ایران میں انٹرنیٹ فراہم کر رہی ہیں: ایلون مسک
تہران/نیویارک،دسمبر۔امریکی ٹیکنالوجی کمپنی اسپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک نے منگل کے روز اعلان کیا ہے کہ اسٹار لنک سیٹلائٹ نیٹ ورک کے ذریعے محفوظ انٹرنیٹ خدمات کے لیے تقریباً 100 ڈیوائسز فی الحال ایران میں کام کر رہی ہیں۔ارب پتی مسک نے ستمبر میں ایران میں اپنے سیٹلائٹ نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ دستیاب کرانے کا وعدہ کیا تھا، جہاں حکام انٹرنیٹ تک رسائی پر بڑھتی ہوئی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔مسک نے پیر کو ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ہم ایران میں 100 فعال سٹار لنک (ڈیوائسز) کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایرانیوں کے لیے انٹرنیٹ کی آزادی اور معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو فروغ دینے کے لیے امریکی حمایت یافتہ کوششوں کے حصے کے طور پر ایران میں سٹار لنک سروس کو چالو کریں گے۔سٹار لنک کے پاس اس وقت 2,000 سے زیادہ چھوٹے سیٹلائٹس ہیں جو کم مدار میں یعنی چند سو کلومیٹر کی بلندی پر زمین کے گرد چکر لگا رہے ہیں تاکہ نیچے کے علاقوں کی آبادیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جا سکے۔ان سیٹلائٹس سیفائدہ اٹھانے کے لیے وہاں زمین پر اسٹیشن ہونے چاہئیں، جن میں سے ہر ایک روٹرز کے ذریعے صارفین کو سروس تقسیم کرتا ہے۔ٹویٹر کے نئے مالک ایلن مسک نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک صارف کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو کے جواب میں ٹویٹ کیا جس نے کہا کہ اس نے یہ ویڈیو ایران میں کھلے مقامات پر بنائی ہے، جہاں اب خواتین کو سر کے بال ڈھانپنے یا نہ ڈھانپنے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔سیٹلائٹ براڈ بینڈ سروس ایرانیوں کو مظاہروں کے دوران انٹرنیٹ اور کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی پر حکومتی پابندیوں کو روکنے میں مدد دے سکتی ہے۔16 ستمبر سے ایران میں کرد نوجوان خاتون مہیسا امینی کی موت کے بعد احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ 22 سالہ مہسا امینی گرفتاری کے تیسرے روز مردہ پائی گئی تھیں۔ انہیں ایران کی اخلاقی پولیس نے تحویل میں لیا تھا اور ان پر ایران کے سخت مذہبی قانون کے تحت لباس کے ضوابط کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا اور مبینہ طور پر تشدد کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔اس کے بعد ملک گیر مظاہروں میں حکام نے سکیورٹی فورسز کے درجنوں ارکان سمیت 200 سے زائد افراد کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔مظاہروں کے موقع پر ہزاروں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا، جن میں حکام کے خلاف نعرے بازی کرنے والے بھی شامل ہیں۔