یوکرین تنازع پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں: روسی صدر
ماسکو، دسمبر۔روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ یوکرین کی جنگ میں شامل تمام فریقین کے ساتھ روس مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن یوکرین اور اس کے مغربی حامیوں نے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کے 24 فروری کو یوکرین پر حملے نے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سب سے شدید تنازع کو جنم دیا ہے، یہ 1962 میں ’کیوبا میزائل تنازع‘ کے بعد روس اور مغرب کے درمیان سب سے بڑا تصادم ہے، اس جنگ کے خاتمے کا امکانات تاحال انتہائی کم نظر آرہے ہیں۔روس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک لڑے گا جب تک اس کے تمام مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے، جبکہ یوکرین نے اپنی سرزمین سے ہر روسی فوجی کو باہر نکالنے تک چین سے نہ بیٹھنے کا دعویٰ کیا ہے جن میں کریمیا بھی شامل ہے جس کا روس نے 2014 میں الحاق کیا تھا۔پوتن نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہم قابل قبول حل کے بارے میں ہر ایک کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ اُن پر منحصر ہے، مذاکرات سے انکاری ہم نہیں، وہ ہیں‘۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے رواں ماہ شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’بیشتر تنازعات کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے لیکن سی آئی اے کا اندازہ ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے روس ابھی تک حقیقی مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے‘۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک مشیر نے کہا کہ ’پیوٹن کو اس حقیقت کے ادراک اور یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ روس ہی ہے جو کسی قسم کے مذاکرات نہیں چاہتا‘۔انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’روس نے تن تنہا یوکرین پر حملہ کیا اور شہریوں پر حملہ آور ہے، روس مذاکرات نہیں چاہتا لیکن اس سب کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کررہا ہے‘۔